The news is by your side.

سیاست نہیں انصاف کیجیے

والدین جو عمرہ کی ادائیگی میں مصروف تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں ایک پیاری سی معصوم ننھی کلی زینب جسے ابھی کھِلنا تھا ، خوشبو جسے اپنی خوشبو سے معاشرے کو مہکانا تھا اس خوشبو کومہکنے سے پہلے ، کلی کو کھِلنے سے پہلے انسان کی ہوس اور معاشرے کی بے حسی کا نشانہ بنادیا گیا۔

چند روز قبل لاپتہ زینب کی تلاش جاری ہی تھی کہ شہباز خان روڈ سے ایک بچی کی لاش ملی جسے پنجاب کے ضلع قصور کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا،بعدازاں اس کی شناخت زینب کے نام سے ہوئی جوچند روز قبل لاپتہ ہوئی تھی۔ڈاکٹرز کے معائنہ کرنے کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ زینب جس کی عمر 7 سال ہے۔اسے پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیاپھر قتل کردیاگیا۔

ایک معصوم بچی ذینب کےساتھ ہونےوالی زیادتی اور پھرلرزہ خیز قتل نے حقیقتاً جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس المناک سانحہ پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ کیونکہ یہ ایک زینب کی بات نہیں تھی یہ ہر اس دوسری زینب کاسوال تھا جو اس بے حس معاشرے میں غیر محفوظ اور بے یقینی کے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہیں۔

جب منگل 9 جنوری کو خبر آئی کہ ایک ننھی کلی کو زیادتی کےبعد قتل کردیاگیا ہے تو اس وقت تک بے ضمیر اشخاص کےلیے کوئی خبر نہیں تھی۔چند باضمیرافراد سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے اپنے دکھ اورغم کااظہارکررہے تھے۔ ملوث افراد کوکیفرِکردارتک پہنچانے کا مطالبہ کررہے تھے۔افسوس ایک زینب کاقتل ہی کافی نہ تھاہمارے حکمرانوں کوجھنجوڑنے کےلیے۔شاید اسی لیے اگلے روز سانحہ نے دوسرےسانحہ کوجنم دیا۔
قصور میں زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف لواحقین نے احتجاج کیا تو اس موقع پر احتجاج کرنےوالوں کےساتھ انتظامیہ کی جانب سے سختی سے نمٹاگیا۔جس میں دوافراد جاں بحق ہوگئے۔اور پھربے حس اشرافیہ کوہوش آیا۔جس کے بعد چند اشخاص کی جانب سے اس بچی کے ساتھ ہونےوا لے ظلم کو جواز بناکر اپنی سیاست کرنے کا ایساسنہری موقع ملا کہ انسانی ہمدردی کی جگہ سیاسی ہمدردی نے لے لی۔

پھروہی روایتی بیان بازی اورمذمتوں کانہ ختم ہونےوالا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ایسانہیں کہ یہ کوئی پہلاواقع ہو،اس سے قبل قصورکے حوا لے سے ا س طرح کی خبریں گزشتہ کئی سالوں سے منظرعام پر آتی رہی ہیں۔مگر اس وقت اس پر کسی جانب سے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ شاید یہ ہی وجہ ہےکہ ملوث ملزمان اس طرح کے فعل کو بارباردہراتےرہے۔ یہ معاملہ صرف قصور ہی نہیں پورے پاکستان کا بھی ہے۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمیشہ ایسے واقعات پر چند دن کےلیے آواز تو اٹھائی جاتی ہے۔ لیکن مستقبل میں اس طرح کے ظلم سے معصوم بچیوں /بچوں کو محفوظ رکھنے کےلیے کسی سطح پر عملی اقدام نہیں اٹھا ئے جا تے ہیں اورنہ کوئی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ عام انسان کے ساتھ زیادتی کرنے والا کبھی گرفتارہی نہیں ہوتا اور اگر گرفت میں آ بھی جائے تو درندہ صفتوں کو عبرتناک سزائیں نہیں دلوائی جاتی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان درندہ صفت ظالموں کو معاشرے کے بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔جب تک ان بااثر افراد کو لگام نہیں ڈالی جائے گی اس طرح کے واقعات ہر ماہ ہر ہفتے رونما ہوتے رہیں گے۔

خدارا سانحات پراپنی سیاست چمکانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے کوروکاجائے۔ کسی بھی سانحہ کو سیاست کی نذرکرنے کے بجائے لواحقین کو انصاف کی فراہمی کےلیے ہرشخص کو زمہ دارانہ کردار ادا کرناچاہیے۔ تاکہ کسی معصوم کو تو ہمارے اس بے حس معاشرے کے بے حس لوگوں کی سیاست کا نشانہ بننے سے بچایاجاسکے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں