پاکستان میں یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مختلف سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔جب بات ہو محنت کشوں، مزدوروں کے دن اور اُن کے جدوجہد کی اور کامریڈ حسن ناصر شہید کا ذکر نہ ہو تو یہ زیادتی ہوگی ۔
یوں تو کامریڈ حسن ناصر شہید کی شخصیت اور عملی جدوجہد کو ایک تحریر میں سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ یومِ مزدور کے موقع پر قارئین کےلیے مختصراً حسن ناصر شہید کی مزدوروں ، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے چند پہلو قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
کامریڈ حسن ناصر شہید وہ شخصیت تھی۔ جس نے زندگی کی تمام آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے بجائے محنت کشوں اور مزدوروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی۔ آخری دم تک جمہوریت ، محنت کشوں،مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ کامریڈ حسن ناصر 1928 میں حیدرآباد دکن (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ والد نظامِ دکن کے جوائنٹ سیکریٹری اور والدہ نواب محسن الملک کی نواسی تھیں۔ کامریڈ حسن ناصر شہید نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیمبرج یونیورسٹی (برطانیہ) سے حاصل کی۔ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران کامریڈ حسن ناصر صاحب کا رابطہ برطانوی اور ہندوستانی نوجوانوں سے ہوا جو کال مارکس کے نظریے سے متاثر تھے۔
جب اعلی ٰتعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان آئے تو کانگریس اور مسلم لیگ کا شور تھا اور دوسری طرف تلنگانہ میں کسان جاگیرداروں اوربرطانوی سامراج کے سامنے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے خاندان کی خواہش کے خلاف جاکر کسانوں کے ساتھ جدوجہد کا حصہ بن گئے۔ تقسیمِ ہند کے دوران تحریک بکھر گئی ۔ پاکستان اور بھارت میں تقسیم کے بعد 1950 میں کامریڈ حسن ناصر شہید نے حیدرآباد دکن سے ہجرت کی اور کراچی آئے لیکن اُن کا خاندان وہیں (بھارت) میں رہا۔
کامریڈ پر تلنگانہ میں کسانوں کا جاگیرداروں اور برطانوی سامراج کے سامنے کھڑے ہوجانے کے دوران کی جانے والی جدوجہد اور اُس تحریک نے گہرا اثر چھوڑا۔ بھارت سے ہجرت کرکے آنے کے بعد کراچی میں آتے ہی پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں کا حصہ بن گئے۔ اپنے نظریہ ،اصولوں اور محنت کش طبقے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر آپ کو اذیتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مارکسزم نظریے کے بارے میں معلوماتی گرفت اور متحرک کردار کو دیکھ کر کمیونسٹ پارٹی کے راہنما 22 سالہ نوجوان کامریڈ حسن ناصر شہید سے کافی متاثر تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کامریڈ حسن ناصر کی انقلابی شخصیت نے کامریڈ حسن ناصرشہید کو کسانوں، نوجوان طلباء فیکٹری مزدوروں میں خاصہ مشہور کردیا۔ 1951 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تو اردو بولنے والے بائیں بازو کے افراد نے ترقی پسند سندھی ، بلوچی، بنگالی اور پشتونوں کے ساتھ مل کر نیشنل عوامی پارٹی بنائی۔ کامریڈ حسن ناصرشہید کو کراچی میں پارٹی کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ کسانوں ، مزدوروں، محنت کشوں کے حقوق کے لیے متحرک کردار ادا کرتے کرتے 1954 میں ایک دن حکومت نے انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ جہاں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ملک بدر کرکے واپس بھارت بھیج دیا۔ ایک سال اپنے خاندان کے ساتھ رہے اور 1955 میں اپنےوالدہ کی خواہش کے برعکس واپس کراچی آگئے۔
کامریڈ حسن ناصرشہید چاہتے تو باآسانی عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن اُن کے دل میں جو حقوق سے محروم عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم کا الگ ہی احساس تھا جس نے انھیں عملی جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔
1958-59 جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو اُس کے فوراً بعد مذہبی جماعتوں اور بائیں بازوں کی جماعتوں کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف پکڑدھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس میں کامریڈ حسن ناصر شہید کچھ وقت کےلیے زیرِزمین رہے۔ لیکن 2 اگست کو اُنھیں گرفتار کرلیا گیا۔ 14 ستمبر 1960 کو کامریڈ حسن ناصر کو لاہور قلعہ لایا گیا جس میں مختلف عقوبت خانے تھے۔ جہاں سیاسی کارکنان کو قید رکھا جاتا اور تشدد کیا جاتا تھا ۔
یہ خطہ باقی دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا یہاں ہر طرف سے بس لوگوں کی چیخوں کی آواز سنائی دیتی تھیں۔ ایسے ہی ایک سیل نمبر 13 میں کامریڈ حسن ناصر کو رکھا گیا۔ مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور 13 نومبر 1960 کو کامریڈ حسن ناصر کے موت کی خبر آئی ۔ کہا جاتا ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس خان قربان علی خان کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ کامریڈ حسن ناصر کو موت تک تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ کامریڈ حسن ناصر شہید کے ماورائے عدالت قتل کو حکومت نے خودکشی قرار دیا۔ کامریڈ حسن ناصر شہید کی والدہ نے پوسٹ مارٹم کا کہا تو ایوب حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی کہ پوسٹ مارٹم نہ ہو لیکن عدالتی حکم پر پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کی گئی۔ کامریڈ حسن ناصر کی والدہ نے اس جسم کو کامریڈ حسن ناصر کا جسم ماننے سے انکار کردیا کہ یہ کامریڈ حسن ناصر نہیں ہے اور واپس خالی ہاتھ بھارت لوٹ گئیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایوب دور میں یہ افواہ عام تھی کہ کامریڈ حسن ناصر شہید کو لاہور کے مشہور قبرستان “میانی صاحب میں دفنا گیا ہے۔ لیکن قبرستان کے گورکن اور قبرستان کے ریکارڈ کے مطابق جس وقت کامریڈ حسن ناصر کا ماورائے عدالت قتل کیاگیا اُس دوران پولیس کی نگرانی میں کسی کو نہیں دفنایا گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کامریڈ حسن ناصر شہید کے درجات بلند کرے۔ مزدوروں اور غریبوں کے حقوق کے جس عظیم مقصد کی جدوجہد کے دوران کامریڈ حسن ناصر شہید ہوئے اس جدوجہد کو منزل تک پہنچائے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں