The news is by your side.

عدم برداشت کا بڑھتا رجحان

ملک میں ہر سطح پر بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور ایک دوسرے کے نظریات اور خیالات کا احترام نہ کرنا ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ اتوار 11 مارچ 2018 کو لاہور میں جامعہ نعیمہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب پر جوتا پھینکنے کا واقعہ پیش آیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر سماجی شخصیات کی جانب سےسخت مذمت کی گئی اور جوتا پھینکنے کے عمل کو غیراخلاقی عمل قرار دیا۔ یہ واقعی ایک غیراخلاقی اور انتہاپسندانہ عمل تھا۔ جوتا پھینکنے جیسا عمل یا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے ایک روز قبل 10 مارچ کو ایک تقریب میں مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور وزیرِخارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کا واقع پیش آیا تھا۔ جس کے بعد سیاہی پھینکنے والے کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم پر جوتا مارنے کا یہ شرپسندانہ عمل گزشتہ چند ماہ میں تیسرا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال پر بھی جوتا پھینکا جاچکاہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے علاوہ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف ، سابق وزیراعلی سندھ ارباب غلام رحیم بھی اس طرح کی شرمناک عمل کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کا کلچر اور انتہاپسندی کی وجہ کیا ہے ؟؟؟ اگر ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیں تو زیادہ وقت نہیں لگے گا اور ہمیں اس کا جواب مل جائے گا۔ جوتا پھینکنے اور سیاہی پھینکنے جیسے واقعات کا ذمہ دار کوئی فرد نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری سب ہی اسٹیک ہولڈرز پر عائد ہوتی ہے۔ سب کے سامنے ہے کہ میڈیا پر صحافیوں اور سیاستدانوں کی جانب سے ٹاک شوز میں کس طرح کی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوامی اجتماعات میں ایک دوسرے کے لیے غیرشائستہ ، غیرمہذب زبان استعمال کی جائے گی تو اس طرح کے واقعات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ چاروں اطراف پھیلی مایوسی ، بےروزگاری ، جاہلیت اور بے یقینی کا ماحول ہے جس کی وجہ سے موقع پرست عناصر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اگر بات کی جائے کہ ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوے عدم برداشت کے کلچر کے محرکات کیا ہیں ؟؟۔دیکھا جائے تو اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا عدم برداشت اور انتہاپسندانہ رویہ کی سب سے بڑی وجہ اربابِ اختیار اور اشرافیہ کی جانب سے اس اہم ترین مسئلے پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہےاور ایک مخصوص حلقے کو کھلی چھوٹ دینا ہے۔

سلمان تاثیر کے قتل پرانتہا پسندانہ طرزِعمل کی ہر سطح پر مذمت کی جاتی اور ایسے عمل کی روک تھام کے لیےسخت اقدامات کیے جاتے تو آج شاید مشال خان بھی زندہ ہوتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ سیاہی اورجوتا پھینکنے جیسے واقعات تواتر سے پیش آنے کا مطلب ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سےکنٹینر پرکھڑے ہوکر عوام کو جو اُکسایا گیا ‘ گالیاں نکالی گئی‘ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے مخالفین کے لیے غیرمہذب زبان میں بیانات دیے گئے مخالفین کو اُلٹا لٹکانے ، پیٹ کاٹ کر پیسہ نکالنے ،گردن سے پکڑ کر جیل بھیجنے جیسے بیانات دیے جاتے رہےہیں۔

اس طرح کے بیانات کے نتیجے میں عوام میں اشتعال انگیزی مزید بڑھتی جارہی ہے۔ اور 2017 میں ختمِ نبوت جیسے حساس معاملے پر سیاست کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فیض آباد دھرنے کے دوران مولوی خادم حسین رضوی کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی وہ ایک انتہائی قابلِ مذمت عمل تھا۔اگر پاکستان کو اس دلدل میں مزید دھنسنے سے بچاناہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ خادم حسین رضوی کی اشتعال انگیز تقریر کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے بلکہ اس پر عدلیہ کو نوٹس لیتے ہوئے کاروائی کرنا چاہیے تاکہ جو لوگ اس بیانیے یا اس جیسے بیانیے کے نتیجے میں غیر مہذب، غیراخلاقی یا کسی بھی غیرقانونی راستہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انھیں اس طرح کے کسی بھی عمل سے روکا جاسکے۔

اختلافات ہونا کوئی غلط بات نہیں اسے جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور ایک دوسری کے نظریات کا احترام کرنا بھی جمہوریت کا حُسن ہی ہوتا ہے۔ لہذا سیاسی جماعتوں نے اب بھی اپنے طرزِ سیاست اور ایک دوسرے کے لیے دیے جانے والے بیانات پر نظرِ ثانی نہیں کیا تو عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے اس سلسلے کو روکنا ناممکن ہوجائےگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں