پاکستان دنیا کا پہلا اسلامی ملک ہے ، دنیا کے ایٹمی ممالک میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہنر مند لوگوں کی کمی نہیں مگر افسوس کہ ہم اپنے ملک کی نمائندگی اور حکمرانی کے لیے ایسے حکمرانوں کو منتخب کرلیتے ہیں جو اہل لوگوں کی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کو کامیابی کی طرف گامزن کرنے کے بجاے ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر لے آتے ہیں ۔ پاکستان میں گزشتہ 8 سالوں سے شاہانہ جمہوری حکمرانی قائم ہے مگر اسکے باوجود ابھی تک پاکستان میں مردم شماری نہ ہوسکی ، جب ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کی کل آبادی کی صحیح اعداد و شمار کا ہی علم نہیں تو ملک کی بہتری کے لیے کس طرح حکمت عملی تیار کرسکتے ہیں ؟ اگر ہم پاکستان میں ہونے والی مردم شماری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی جس کے بعد دوسری 1961 ، تیسری 1972، اور چوتھی 1981، پانچویں مردم شماری پاکستان غیر معمولی حالات کی بنا پر ملتوی ہوتے ہوتے 1998 میں ہوئی جو اب تک کی آخری مردم شماری تھی۔
( 1998کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی 134,714,017 تھی ، پاکستان کی کل آبادی آج 2016 میں غیرسرکاری مردم شماری کے مطابق 20 کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ) ، 1998 کی مردم شماری کے بعد 2008میں مردم شماری ہونا تھی مگر حکمرانوں کی ” غیر سنجیدگی ” کی بنا پر اب تک ممکن نہ ہوسکی پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں صرف بازگشت سنائی دی گئی مگر عملی کچھ نہ ہوسکا ، مسلم لیگ نواز حکومت نے اعلان کررکھا ہے کہ پاکستان میں چھٹی 6ویں مردم شماری مارچ 2016 میں ہوگی۔۔ اعلان ہوا ہے عمل ہوگا یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔
کسی بھی ملک کو بہتر پالیسز اور ملکی ترقی کے اقدامات ، درپیش مسائل کے حل ، وسائل کے تقسیم اور دیگر اہم معمولات کے لیے مردم شماری کی ضرورت ہوتی ہے ، جس سے ملک کے پالیسی میکرز کو گراونڈ ریئلیٹیز کا پتہ چلتا ہے جس کے بعد انھیں لانگ ٹرم پالیسیز بنانے میں آسانیاں پیدا یوتی ہیں ۔ مردم شماری کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس پروسیس کے بعد پالیسی میکرز ، اور ریاست ان سے حاصل ہونے والی اعداد و شمار کے مطابق ملک و قوم کے لیے بہتر حکمت عملی اور پلاننگ کرسکتے ہیں تاکہ شہروں ، صوبوں ، گاوں ، وغیرہ کی آبادی کے مطابق وہاں ترقیاتی کام ہوسکیں ، مردم شماری کے پروسیس کے بعد پالیسی میکرز کے پاس مکمل اعداد و شمار موجود ہوتے ہیں کہ کونسا شہر اور صوبہ کتنی آبادی پر مشتمل ہے ، کہاں کہاں کتنے نوجوان بچے اور بچیاں ہیں ، کتنے مرد ، عورت ہیں یہ سب اعداد و شمار جامعہ حکمت عملی کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ سینسس سے ملنے والے حقائق سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کے حساب سے وہاں کیا کیا ترقیاتی کام ہونا چاہیے اور کتنی آبادی پر اسکولز اور ہسپتال ہونا چاہیے۔۔ اور دیگر ضروریات زندگی وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان گزشتہ 8 سالوں سے صرف اندازوں پر چل رہا ہے جس سے ہمارے جمہوری حکمرانوں کی نیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے لیے کتنے مخلص ہیں ۔ پاکستان میں جمہوریت کیثمرات عام عوام تک پہنچانے اور جمہوریت کی ناکامی کی اصل وجہ جمہوری حکمرانوں کی غیرسنجیدگی ہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کی جانب سفر کررہی ہے مگر ہم آج تک پاکستان کی کل آبادی کے اعداد و شمار بھی جمع نہیں کرسکے۔ دنیا آج آئیندہ آنے والے 15، سالوں میں مزید ترقی کے لیے سنجیدگی سے اپنے اپنے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں اور پاکستان میں جمہوری حکمران اپنی ہی عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کرنے میں مصروف ہیں پاکستان میں ہر عوامی اور اہم ایشو پر غیر زمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔مردم شماری کی طرح ایک اور اہم ایشو پر ہمارے جمہوری حکمران آنکھیں چراتے رہے وہ ہے مقامی حکومت کا قیام اور اختیارات کا نچلی سطح پر منتقل کرنا ، مقامی حکومت کے قیام کو جمہوریت کی نرسری کہا/ سمجھا جاتا ہے جسے صوبائی و وفاقی حکومت نے بلدیاتی انتخابات اس لیے نہیں کروائے کے وہ عوام کے بہت خیرخواہ ہیں بلکہ ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات اعلی عدلیہ کے حکم پر کروائے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بالاخر دسمبر 2015 میں پورے پاکستان میں مقامی حکومتوں کا قیام کے لیے انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہوچکیہیں، مگر اب بھی وفاقی و صوبائی حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ جاری ہے ، بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد بھی عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں جس کی وجہ ہے مقامی نمائندوں کا بیاختیار ہونا۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات تو ہوگئے مگر عوام دشمن حکمرانوں نے مقامی حکومتوں کے نمائندوں سے انکے تمام اختیارات چھین لیے ہیں ، جو دنیا کی سب سے بیاختیار مقامی حکومتیں سمجھی جارہی ہیں جو آئین کے آرٹیکل 140۔Aکی خلاف ورزی ہے۔ جس کے مطابق موجودہ صوبائی و وفاقی حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ملک میں مقامی حکومت کے قیام کے زریعے اختیارات اور اقتدار نچلی سطح پر منتقل کیا جائے۔ صحافی ، طلبہ و طالبات ، این جی اوز ، سول سوسائٹیز کے نمایندے ، پاکستان کے اعلی ادارے،اسکیاعلاوہ میڈیا اور اس سے منسلک لوگوں کو بھی اپنے اپنے پلیٹ فارم سے عوام کے بنیادی حقوق اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرناچاہیے ۔ پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ملک و قوم کی ترقی ، خوشحالی کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور اختیار کو نچلی سطح پر منتقل کریں تاکہ پاکستان کی ترقی میں عام عوام بھی اپنا کردار ادا کرسکے۔