The news is by your side.

عسکری، سیاسی قیادت کا اعلیٰ سطحی اجلاس، چوہدری نثارغیرحاضر

    قومی سلامی ، ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اورخطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس پاک فوج کے جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوتا ہے، جس میں عسکری اورسیاسی قیادت بشمول وزیردفاع خواجہ آصف، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، مشیر برائے امورخارجہ اور نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز اور وزیر اعظم کے خارجہ امورپرمعاون خصوصی طارق فاطمی شرکت کرتے ہیں، پاک فوج کی نمائندگی پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کرتے ہیں جبکہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹنٹ جنرل زبیر محمود حیات ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل رضوان اختر ، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹنٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور میجر جنرل ندیم ذکی منج سمیت دیگراعلیٰ افسران اجلاس میں شریک تھے، اجلاس میں ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اورسکیورٹی کے معاملات بشمول چین پاکستان اقتصادی راہداری کی سکیورٹی پربات چیت کی گئی۔

اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور اتفاق رائے پایا گیا کہ ان کامیابیوں کے تسلسل کو ہر صورت میں برقرار رکھا جائے گا ،جبکہ اجلاس میں خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں بالخصوص بھارت کی امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت ، بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ، بھارت کی ایران میں سرمایہ کاری اور نیوکلیئر سپلائیر گروپ میں شرکت کے لئے سفارتی کوششیں بھی موضوع بحث ہوتی ہیں۔

ان تمام پیش رفت کا جائزہ لے کر شرکاء اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے دہشت گردوں اورشدت پسندوں کی فنڈنگ کرکے پاکستان کو اندورنی طورپرعدم استحکام کا شکارکرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی ، شرکاء اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان خطے میں پائیدار امن اور استحکام کے لئے متحرک اور مثبت کردار ادا کررہا ہے تاہم وطن دشمن خفیہ ایجنسیاں بشمول بھارتی “را”اور افغانستان کی “نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی “سمیت کچھ ہمسایہ ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت پاکستان میں انتشاربرپا کرنے کوششیں کررہے ہیں، جو دہشت گردی کی مالی اور تکنیکی معاونت سمیت سلیپر سیل اور سہولت کاروں کی پشت پناہی کررہی ہے، ان کی ایسی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گی۔

اجلاس میں 21 مئی کو بلوچستان کے علاقے نوشکی میں امریکہ ڈرون حملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے، جس میں افغان طالبان ملا اختر منصور جاں بحق ہوتے ہیں، شرکائے محفل اس ڈرون حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان اور امریکہ کا باہمی اعتماد مجروع ہوا بلکہ یہ حملہ افغان امن عمل ، جس کیلئے پاکستان نے بہت مخلص کوششیں کی جن میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا اثرو رسوخ کرنا بھی شامل ہے ، سے متعلق طے کردہ اصولوں کی بھی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے ،شرکائے اجلاس میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ قومی مفادات کاہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

اجلاس کے تمام شرکاء کو تمام امور پر اتفاق بھی ہے اور تمام معاملات پر سب پر عزم بھی ہیں تاہم چین پاک اقتصادی راہداری ، پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ، ڈرون حملہ ، وطن عزیز کے اندر بھارتی مداخلت اور قومی ایکشن پلان وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان کا شعبہ مہارت نہیں ؟ کیا ان کی اجلاس میں عدم شرکت کو سیاسی شرکاء کا ان سے متعلق اظہارنا پسندیدگی تصور کیا جائے ؟ یاپھر عسکری قیادت ان کی شرکت کی متمنی نہیں ؟ کہیں چوہدری نثار علی خان عسکری یا فوجی قیادت سے پھر ناراض تو نہیں ؟ اگر عسکری اور سیاسی قادت ایک ہی پیج پر ہیں تو پھرحکومت وقت کے اہم ترین سینئر وزیر کی سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں عدم شرکت کو کس نظر سے دیکھنا چاہئے ؟ کہیں کوئی سولوفلائٹ یا ذاتی ناپسندیدگی تو آڑے نہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں