خبر کی دنیا میں اہم اور نایاب خبر جو قاری یا ناظر کو چونکا دے ایک اعزاز مانا جاتا ہے اور منجھے ہوئے صحافی ایسی خبروں کی تاک میں رہتے ہیں، دنیا بھر اور ہمارے ملک ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جن کی خبروں نے دھوم مچائی ہو اور عوامی و سیاسی سطح پر ان کو بھر پور پزیرائی ملی ہو ۔ ان میں کرپشن، سیاست ، حکومتوں پر قبضہ سے ذاتی تعلقات تک کے معاملات شامل رہتے ہیں ۔
اس نوعیت کی خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نمایاں ہوکرپیش ہوتی رہتی ہے لیکن اب میں حوالہ دینا چاہتا ہوں چند ایسے معاملات کا جس میں میڈیا کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہے جو بظاہر نہیں آتا جن میں الیکٹرانک میڈیا میں دہشت گردی کا اگر کوئی واقعہ رپورٹ ہورہا ہو تو ہر چینل پر آپ کو یہ لائن ضرور ملے گی ۔ ’سب سے پہلے یہ خبر ہم نے دی ہے‘، ’سب سے پہلے یہ مناظر ہم نے دکھائے ہیں‘، ’سب سے پہلے ہم نے فلاں شخص سے بات کی‘اور’ سب سے پہلے ہم نے یہ تعداد ہم نے بتائی ہے ‘۔ بھلے وہ خبر اور تعداد بعد میں غلط ہوجائے ۔ غیر سنجیدگی کا تو یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک چینل پر دہشت گردی کے واقعہ پرایک رپورٹر ہسپتال سے بیپر دیتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے’ مردے نے واقعہ کے متعلق بتایا‘۔ اسی طرح جب محسن انسانیت مرحوم عبدالستار ایدھی کی قبر پر ایک رپورٹر لحد میں لیٹ کر’ پیس ٹو کیمرہ‘ کرتے دیکھا گیا ۔
اسی طرح کی سبقٹ کی دوڑ آپ کو الیکشن کوریج میں بھی خوب نظر آئے گی اور رزلٹ تو ہر چینل ایسے دے رہا ہوتا جیسے بیلٹ بکس ان کے دفتر میں کھولے جارہے ہوں۔ تمہید لمبی ہوگئی ہے ، میرا مقصد کوئٹہ میں دل کو دھلا دینے والے واقعہ جس میں وکلاء، عام عوام اور صحافیوں کی قیمتی جانی قربانیاں سامنے آئی ہیں، اس معاملےپر میڈیا کے کردار کے حوالے سے لکھنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جہاں فوج ، پولیس ، رینجرز ، وکلاء، علماء ، سول سوسائتی ، فنکاروں ، ننھے اور معصوم طالب علموں، اساتزہ سمیت ہر مکتب فکر، ہر مزہب ، سوچ اور بلا تفریق رنگ و نسل کے حامل افراد نے قربانیاں دیں، وہی میڈیا بھی ایک سو سے زائد افراد کی قربانیاں دینے والوں میں شامل ہے اور اگر میڈیا کے جانی نقصان کو اگر جائزہ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان تمام افراداکو اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے ادائیگی کے دورا ن شہید کیا گیا ہے جیسا کہ کوئٹہ میں آج نیوز اور ڈان نیوز کے کیمرہ مین شہزاد خان اور محمود خان کا تازہ واقعہ سب کے سامنے ہیں آور اخری اطلاعات تک دنیا نیوز کا رپورٹر فریداللہ اسپتال میں زیرِ علاج ہے اور ہماری دعا کہ وہ جلد شفا یاب ہوجائے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کا واقعہ جیسا بھی جہاں بھی ہو اس کی سخت سے سخت الفاط میں مذمت کرنی چاہیے اور اس کے خلاف بھر پور اواز اٹھانی چاہے ۔ میڈیا جہاں اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے باعث اس کا نشانہ بنتا رہا ہے وہی ایک عنصردوسرے سے سبقت کا بھی ہے ۔ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو چینل کے نیوز ڈیسک پر ایک ہنگامہ دیکھنے کو ملے گا جیسے ریسکیو یا فائر بریگیڈ کے دفتر کا منظر ہو ۔ سٹیلائٹ وین جیسے ڈی ایس این جی کہا جاتا ہے، سڑک پر پولیس موبائل اور ایمبولینس سے پہلے پہنچنے کی غرض سے ’ ہٹو بچوں کا سائرن ‘ دیتے ہوئے ایسی بھاگ رہی ہوتی ہے کہ جیسے روڈ ان کے لئے خالی پڑے ہیں بھلے اس دوران کسی گاڑی کی ٹکر ہی کیوں نہ ہوجائے ۔
اس تیزی کے پیچھے کار فرما ہوتی ہے سب سے پہلے کی پٹی کا ٹی وی سکرین چلنا اور اس کے اوپرسے ڈیسک کی ٹیلیفون کال ۔ جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی تو دہشت گردوں نے یہ طریقہ اپنانا شروع کیا کہ پہلے وہ چھوٹا ھملہ یا دھماکے کرتے اور جب متعلقہ لوگ اکٹھے ہوجاتے تو خفیہ مقام سے دوسرا دھماکہ ۔ گوکہ اس طریقہ واردات پر قابو پانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن پھر جہاں قانون نافذ کرنے والے اور دیگر افراد اس کا ٹارغت بنتے ہیں وہی میڈیا جس پر پہلے جنون سوار ہوتا ہے پہلے پہنچنے کا وہ بھی اس کی زد میں آجاتا ہے ۔
اگر کہیں متعلقہ ادارے احتیاط کے باعث تھوڑا لیٹ پہنچے اور میڈیا پہلے پہنچ جائے تو اس واقعہ کو چھوڑ کر میڈیا متعلقہ اداروں کی غفلت پر تبصرے شروع کردیتا ہے ۔ میڈیا کے لئے متعدد ٹریننگ کورس کا انعقاد بھی ہوچکا ہے کہ کیسے جنگ زدہ یا تصادم کا شکار علاقہ میں کوریج کرنی ہے اور جب واقعہ ہو تو فورا نہ پہنچا جائے ۔ اسی طرح ہسپتال میں جب زخمی لائے جارہے ہوتے ہیں تو ایمرجنسی میں میڈیا کیمرہ اور مائیک کے ساتھ انٹرویو کے لئے بھاگ رہا ہوتا ہے ۔ ایک منظر میں چینل میں ایسا بھی نظر ایا کہ جنرل وارڈ میں آپریشن ہورہا ہے اور میڈیا کو نمائندہ اس زخمی سے یہ پوچھتا دکھائی دیا کہ ’ واقعہ کیسے رونما ہوا‘۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اب اسپتال میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن پھر جب کوئی واقعہ تو رپورٹر کو کہا جاتا ہے کہ ایمرجنسی میں جا کر انٹرویو کر لو ۔
میں سمجھتا ہوں کہ کوئٹہ میں میڈیا اور دیگر افراد کو اتنا نقصان نہ ہوتا اگر جلد بازی سے اجتناب کرتے ، میڈیا کے نمائدے ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ کا استعال کرتے اور سب سے بڑھ کر ڈیسک یہ شور نہ مچاتا کہ فورا پہنچو ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے ۔ اپنے دیکھا ہوگا کہ حالیہ دنوں میں یورپ میں جو واقعات ہوئے وہاں میڈیا نے کرائم سین کو کراس نہیں کیا اور نہ ہی اسپتال ہر ہلا بول دیا ۔ ہمار ے خطے کے مخسوص حالات کے پیش نظر ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو احتیاط سے قدم اٹھانا چاہے ۔ جبکہ ریاست کی ذمہ داری کو وہ ہر شہری کا تحفظ یقینی بنائے ۔ جہاں تک میڈیا کی قربانیوں کا تعلق ہے تو یہ قربانیاں دیگر افراد کی قربانیوں کی طرح رائیگاں نہیں جائیں گی ۔