انسان کے معاشرتی حیواں ہونے اور پھر معاشرے میں اسکے اپنے جیسے انسانوں کے مفادات سے ٹکرانے کی وجہ سے کئی تنازعات جنم لیتے ہیں ۔مختلف ممالک کا حال بھی ایسا ہی ہے جن کے مفادات بھی چونکہ ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں اس لئے بھی ایک ملک کو دوسرے جارح ملک سے تحفظ کے لئے اپنی دفاعی پالیسی کو مضبوط بنانا پڑتا ہے ۔
پاکستان کے اٹیمی پروگرام کی بات کریں تو انیس سو چوراسی میں ہی سابق صدر جنرل ضیا الحق کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مطلع کر دیا تھا کہ اٹیمی صلاحیت کے حوالے سے تمام کولڈ ٹیسٹ کامیاب ہو چکے ہیں اور اگر حکومت فیصلہ کرے تو صرف دس دن میں ہی پاکستان باقاعدہ طور پر اٹیمی دھماکے کر سکتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو کیوں کر اتنے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا چاہتا ہے ؟تو پرامن اٹیمی توانائی کا حصول اور پھر اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا پاکستان کا بطور ایک آزاد اور ذمہ دار ریاست ایک اہم حق ہے ۔
پاکستان کی جوہری توانائی یہاں بہت سے شعبوں میں استعمال ہو رہی ہے جیسے کہ ۱۸ ہسپتالوں میں ۸۰ فیصد کنیسر کے مریضوں کے علاج کے لئے جوہری ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے ۔ ۲۰۱۸ تک پاک چین اقتصادی راہداری اور دیگر توانائی کے منصوبوں سے دس ہزار میگا واٹ کی فاضل بجلی بھی پاکستان کو ملے گی اور آئندہ ۳۵ سال میں مجموعی طور پر ساٹھ ہزار میگا واٹ بجلی جوہری توانائی سے حاصل کی جائے گی ۔
پاکستان کو ہم ایک ذمہ دار جوہری ریاست کہہ سکتے ہیں کیونکہ پاکستان نے کبھی بھی علاقے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لئے پہل نہیں کی ہاں لیکن بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب ضرور دیا ۔ اگر ہم دیکھیں بھی تو پاکستان کا اپنی ایٹمی قوت میں اضافہ کرنا اسلئے بھی ناگزیر ہے کہ بھارت پاکستان میں ہمیشہ دراندازی کرتا رہا ہے ۔ دونوں ممالک میں مسئلہ کشمیر ایک اہم تنازعہ رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی ناقابل فراموش ہے کہ بھارت اول دن سے ہی پاکستان کے قیام کو قبول نہیں کر رہا ہے ۔
انگریزی جریدے واشگنٹن پوسٹ کی رواں سال کی ایک خبر کے مطابق انڈیا کے پاس ۱۰۰ نیو کلئیر وار ہیڈز ہیں جبکہ پاکستان سالانہ بیس وار ہیڈز بنا سکتا ہے او رموجودہ تعدار ۱۲۰ وار ہیڈز ہے ۔ پاکستان اس سب کے نتیجے میں دنیا کی تیسری بڑی اٹیمی قوت بن سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ بھارت کی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے ۲۸ مئی ۱۹۹۸کو چاغی کےعلاقے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے پانچ اٹیمی دھماکے کئے تھے ۔