’’ہر طرف جنگی بینڈ باجے بج رہے ہیں اور آپ ہیں کہ یہاں خاموش بیٹھے ہیں۔‘‘
’’کس کی بینڈ بج رہی ہے اور کس کا باجا بجنے کو ہے ؟کیا کوئی شادی کی تقریب ہے؟‘‘
’’ میں جنگی بینڈ باجوں کی بات کررہا ہوں، شادی والے بینڈ باجوں کی نہیں۔‘‘
’’ ہمارے یہاں تو جنگی بینڈ باجے بھی شادی میں بجتے ہیں، کیا تم نے دیکھا نہیں کتنی فائرنگ ہوتی ہے ہمارے یہاں شادیوں پر۔‘‘
’ہاں وہ تو ہے لیکن یہ شادی والی فائرنگ نہیں ۔‘‘
’’کیا فرق پڑتا ہے ، ہم تو پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے نومولودبچے اذان کی آواز سے پہلے بندوق کی گولی کی آواز سنتے ہیں۔‘‘
’’ یہ بات تو ہے لیکن یہ باقاعدہ جنگ کی بات ہے۔‘‘
’’ پتا نہیں تم کس دنیا میں رہتے ہو؟ جنگ کا کوئی قاعدہ نہیں ہوتا جو باقاعدہ ہو۔ جہاں جس کو موقع ہاتھ لگ جاتا ہے وہ جنگ کرنے سے باز نہیں آتا۔‘‘
’’لیکن یہ جو جنگ کی باتیں ہورہی ہیں اس سے بہت تباہی پھیلے گی۔‘‘
’’ جنگیں سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں یا پھر سبق سکھانے کے لیے۔ لیکن ہم نے کسی بھی جنگ سے کچھ نہیں سیکھا۔اسی لیے یہ سب باتیں ہورہی ہیں۔‘‘
’’ کیا تم جنگ کے حق میں نہیں ہو؟‘‘
’’ کون سی جنگ ، وہ جو میڈیا پر لڑی جارہی ہے۔۔۔ عام آدمی چاہے وہ پاکستان کا رہنے والا ہو یا ہندوستان کا رہنے والا دونوں ہی اپنی روزی روٹی کی فکر میں ہیں کہ کب ان کے منھ میں نوالہ جائے تاکہ وہ زندگی کی جنگ جیت سکیں۔‘‘
’’بات تو تمہاری دل کو لگتی ہے لیکن کیا کریں ہر طرف جنگ کا شور مچا ہوا ہے۔‘‘
’’ کہا ناں یہ صرف میڈیا پر شور ہے ، عام آدمی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘
’’عام آدمی کا اس جنگ سے کیوں تعلق نہیں ، جب جنگ ہوگی تو یہی عام آدمی تو اس جنگ کا سب سے پہلے ایندھن بنیں گے۔‘‘
’’اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تم نے سنا نہیں جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔‘‘
’’پتا نہیں کتے نے یہ سب پڑھا ہے کہ نہیں ، کہیں وہ کاٹ لینے کی غلطی نہ کربیٹھے۔‘‘
’’کتے پڑھے لکھے نہیں ہوتے بس اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں ۔ جس نے کتے کی دُم پر پاؤں رکھا ہے وہی اس کا مالک اس کو ہڈی ڈالے گا تو خود ہی چپ ہوجائے گا۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے یہ سب کسی کے اشارے پر ہورہا ہے۔‘‘
’’اور نہیں تو کیا،اب تم میرا اشارہ نہیں سمجھ رہے تو کسی کا اشارہ کیا سمجھو گے؟‘‘
’’اچھا تو پھر یہ جو دھرنا ہونے والا ہے یہ بھی کسی کے اشارے پر ہے؟‘‘
’’اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا اس لیے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ‘‘
’’لیکن میاں صاحب کو تو سازش کی بو آرہی ہے ، وہ دھرنے کو پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’میاں صاحب سمجھوتہ ایکسپریس چلانے کے چکر میں ہیں اور خان صاحب پٹری بدلنے کے چکر میں۔‘‘
’’خان صاحب کو چاہیے کہ وہ بھی اس سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار ہوجائیں ورنہ جمہوریت جو بڑی مشکل سے پٹری پر چڑھی ہے کہیں پٹری سے اتر گئی تو پھر کسی کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔‘‘
’’آپ کب تک عوام کو سرخ بتی کے پیچھے لگا کر رکھیں گے۔ عوام کہتی ہے خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھانے دو۔‘‘
’’اس طرح تو ملک کبھی بھی نہیں چل سکتا۔‘‘
’’اتنے سالوں سے چل تو رہا ہے ۔۔۔ تو کیا ایسے ہی چل رہا ہے۔‘‘
’’کھاؤ پیو عیش کرو، اور جب ختم ہوجائے مزید اُدھار لے لینا۔لیکن یہ ’’ترقی‘‘ کا سفر نہیں رکنا چاہئے۔۔۔ سمجھے!!‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔