”میرے خواب ٹوٹ گئے ہیں کوئی درزی ، موچی یا کوئی ویلڈر مل جائے گا خواب جوڑنے ہیں۔“
” خواب جوڑ کر کیا کرو گے ، یہاں تو سب کچھ ٹوٹا ہوا ہے ،سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گٹر کی لائن ہو یا پانی کی لائن سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،سرکاری اسکول کی عمارتیں ہوں یا ہسپتال سبھی ٹوٹ پھوٹ کے بعد کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں، غرض یہاں تو لوگ بھی اب ٹوٹ چکے ہیں۔“
” لیکن مجھے تو اپنے خواب جوڑنے ہیں، چاہے اس کے لیے مجھے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔“
” اب چین جانے کی ضرورت تھی ، چین خود چل کر آرہا ہے آپ کے پاس۔“
” چین کیا ہمارے خواب جوڑ سکتا ہے؟“
” چین والے خواب جوڑتے نہیں،البتہ اچھے خواب دکھاتے ضرور ہیں۔“
” خواب تو ہمیں امریکہ نے بھی بہت دکھائے تھے لیکن جب خواب ٹوٹا تو ملک بھی ٹوٹ کر دو لخت ہو گیا۔“
” کب تک ہم یونہی سوتے رہیں گے اور خواب دیکھتے رہیں گے؟کیا خواب دیکھنا ضروری ہیں؟“
” علامہ اقبال نے جو پاکستان کا خواب دیکھا تھا ، میں بھی ویسا ہی خواب دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔“
”ہمارے ملک کے سیاستدان ہمیں اتنے سالوں سے خواب ہی تو دکھا رہے ہیں ، کبھی روٹی ،کپڑا اور مکان کا خواب تو کبھی نئے پاکستان کا خواب…. اور کتنے خواب دیکھوں گے اور پھر انہیں ٹوٹتا ہوا دیکھوں گے۔“
”اندھیرے بھی تو بہت زیادہ ہیں اور صبح بھی نہیں ہو رہی ، اب خو اب نہ دیکھیں تو کیا کریں۔“
” خواب دیکھنے کے لیے سونا بہت ضروری ہے ،لیکن اسے پورا کرنے کے لیے جاگنا پڑتا ہے۔صرف سوچ لینے سے اندھیرے نہیں جاتے، چراغ خودنہیں جلتا ، جلانا پڑتا ہے ۔“
”پتا نہیں کس نے ہمیں اتنی گہری نیند سلا دیا ہے کہ اب ہماری آنکھ ہی نہیں کھلتی۔اتنے سانحے آنکھوں کے سامنے سے بھیانک خواب کی مانند گزر گئے لیکن آنکھ ہے کہ کھلتی ہی نہیں۔“
”اگر یونہی سوتے رہنا ہے اور خواب ہی دیکھنے ہیں تو پھر ایک کام کرو خوابوں کی دکان لگا لو۔“
”لیکن ہمارے خواب کون خریدے گا اور وہ بھی ٹوٹے پھوٹے خواب !!“
” سنا نہیں یہاں سب بکتا ہے۔“
”بکتا زیر کے ساتھ ہے کہ زبر کے ساتھ!!“
” جیسے چاہو بیچ دو، زیر زبر سب چلتا ہے۔بس کسی کے سامنے پیش نہیں ہونا ۔“
” پیش ہونے کی غلطی ایک شریف نے کی تھی ، جب سے وہ ہر ایک سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟“
”خوابوں کے کاروبار میں پہلے ہی بہت لوگ موجود ہیں، یہ کاروبار چلنے والا نہیں۔مجھے اپنے خواب نہیں بیچنے ، مجھے تو بس اپنا خواب پورا کرنا ہے۔کوئی تو ہو گا جو ہمارے خواب جوڑ سکے۔“
” خواب دکھانے والے بہت ہیں لیکن انہیں جوڑنے والا کوئی نہیں۔کیا خیال ہے خواب جوڑنے کا ہی کاروبار نہ شروع کر دیں۔“
” ہاں یہ ٹھیک رہے گا …. لیکن خواب جوڑیں گے کیسے؟“
”انسان کو رنگ،نسل ،زبان،فرقہ، ذات پات اور ہر قسم کے تعصب سے آزاد کردو ،دیکھو کیسے سارے خواب خودبخود جڑ جائیں گے ۔“
” ہاں ،لیکن یہ بھی تو ایک خواب….!!“
٭….٭
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔