The news is by your side.

الن کلن کی باتیں: اپنی شناخت کے لیے نکلیں

”ہماری شناخت کہیں گم ہوگئی ہے؟ چلو اپنی شناخت کے لیے نکلیں۔“
”کہاں گم ہوئی ہے اور اسے کہاں تلاش کرنا ہے؟“
”گم تو پتا نہیں کہاں ہوگئی ہے لیکن تلاش اسے مزار ِقائد پر کرنا ہے۔“
”وہاں جا کر کیا کریں گے؟“
”بابا ئے قائد اعظم سے کچھ پوچھنا ہے۔“
”انہوں نے تو آپ کو شناخت دی تھی اب ان سے کیا پوچھنا ہے؟“
” پاکستان کو بنے نصف صدی کا عرصہ بیت گیا ۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی لیکن یہاں آکر ہم مہاجر ہو گئے۔“
”پھر یہ شناخت گم نہیں ہوئی ‘ کسی نے آپ سے آپ کی شناخت چھین لی ہے۔“
” ہمیں ہماری شناخت نہیں ملی، یہاں کوئی سندھی ہے، پنجابی ہے، پٹھان ہے،بلوچی ہے ،سرائیکی ہے لیکن ہم کیا ہیں؟“
”آپ پاکستانی تھے، پاکستانی ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے لیکن سیاست چمکانے والوں نے آپ کو مہاجر بنا دیا۔“
” ہمیں ہمارے حقوق نہیں ملے ۔“
” یہاں حقوق ملے کس کو ہیں؟ سب ہی حقوق کا رونا رو رہے ہیں۔سندھی ہو،پنجابی ہو،پٹھان ہویا بلوچی …. سب کو حقوق چاہیے۔جب تک پاکستانی نہیں بنو گے کسی کو بھی حق نہیں ملے گا۔“
” تم یہ کہنا چاہتے ہوکہ ملک پرانگریزوں کے جانے کے بعد جاگیرداروں اور وڈیروں نے قبضہ کرلیا ہے۔“
” غریب کے لیے نعرہ لگانے والے امیر ہوگئے لیکن غریب آج بھی غریب ہے۔مہاجر بن کر تمہیں کیا حق ملا؟“
” بات تو تمہاری دل کولگتی ہے کیونکہ کراچی شہر میں مہاجر سیاست سے پہلے امن و امان تھا۔ لیکن جب سے ہمیں مہاجر بنا یا گیا ہے اب ہماری شناخت کانا،لنگڑا، ٹنڈا بن کر رہ گیا ہے۔“
” پہلے تمہیں سندھیوں سے لڑایا، پھر پٹھانوں اور پنجابیوں سے لڑایا اور پھر آخر میں مہاجروں کو مہاجروں سے لڑا کر موت کا حقدار بنا دیا۔ کیا یہ ہے تمہاری شناخت؟“
”مردم شماری میں ہماری تعداد کو کم کردیا ہے جو ہم نے بڑی محنت سے بڑھائی تھی۔“
” شہر میں اتنا قتل و خون ہونے کے بعد آبادی نے بڑھنا تھا یا کم ہونا تھا؟“
”یہ بات نہیں دراصل نادراکے شناختی عمل نے ہماری شناخت مشکل کردی ہے۔“
”اسی طرح جیسے الیکشن کے بعد ووٹوں کی تصدیق مشکل ہوتی ہے۔“
”تصدیق کی ضرورت ہی کیا ہے ، جب اکثریت ہمیں منتخب کرتی ہے۔“
” شناخت اگر جعلی ہو تو منڈیٹ بھی جعلی ہوجاتا ہے اور جعلی منڈیٹ سے جعلی لیڈر ہی سامنے آتے ہیں جو آپ کو کبھی اصل شناخت نہیں دے سکتے!!“
”آج سے ہماری شناخت صرف پاکستانی ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہجرت کی تھی ۔“
”تواب ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں!!“
٭….٭

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں