اپنے صحافتی سفر کے دوران کئی تحریکیں دیکھنے کا موقع ملا ۔ کئی جلسوں کی کوریج کی اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف توچوراہے پر تقاریر بھی کیں ۔ صحافیوں پر حملے ہوئے توٹریڈ یونین کے ہمراہ پریس کلب کے باہر احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ۔ جلتے ہوئے ٹائروں سے لیکر پٹتے ہوئے راہگیروں تک کئی مناظر دیکھے ۔ اپنے وقت کے کئی حاکموں کو بعد میں اسی سڑک پر خود بھی لاٹھی چارج کا نشانہ بنتے دیکھا ۔ لاٹھی گولی کی سرکار چلانے والوں کو ہی بعد میں ’’لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘‘ کے نعرے لگاتے انہی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ زیادہ دور کیا جانا ہے ۔ وکلا تحریک میں آگے آگے نظر آنے والے کئی شرفا کو بعد میں اسی تحریک کے امام کے خلاف گالیاں بکتے دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
اب منظر نامہ بدل رہا ہے ۔ وہ جنگیں جو سڑکوں اور چوراہوں پر لڑی جاتی تھیں اب موبائل اور لیپ ٹاپ پر منتقل ہو چکی ہے ۔ سوشل میڈیا احتجاجی تحریکوں کا بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یہاں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا مسئلہ سامنے لایا جاتا ہے ۔ بظاہر یہ خیال بہت خوبصورت محسوس ہوتا ہے کہ ایک عام سا مسئلہ بھی گھر بیٹھے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا پہلو اتنا ہی بھیانک ہے ۔ بے لگام سوشل میڈیا نے ہر اس شخص کو خود ساختہ دانشور بنا دیا ہے جس کی فکر چاہے کسی بھی معیار پر پوری نہ اترتی ہو لیکن اسے سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلانے کا فن آتا ہو ۔منافقت کا یہ عالم ہے کہ اب سٹیٹس یا پوسٹ ایسے لائیک کی جاتی ہے جیسے کمیٹی ڈالی ہو کہ ہم لائیک کریں گے تو جواب میں لائیکس ملیں گے ۔ جو ہماری پوسٹ شیئر نہ کرے اسے تو اکثر فرینڈ لسٹ سے ہی نکال باہر کیا جاتا ہے ۔ ایسے دانشور مختلف لڑکیوں کے ناموں سے فیک آئی ڈیز بنا کر اپنی ریٹنگ بڑھانے میں مصروفنظر آتے ہیں ۔
صحافت کی مختصرتاریخ‘ قوانین و ضابطہ اخلاق
کچھ عرصہ سے لوگوں کے مزاج اور گفتگو کا جائزہ لے رہا ہوں ۔ پہلے لگتا تھا کہ ہم خدائی فوجدار سوشل میڈیا پر بڑے سے بڑے حاکم کو للکارنے سے نہیں ہچکچاتے ۔ ہمارے کالم آمروں کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔ اب البتہ خیالات بدل رہے ہیں ۔ مشاہدے سے کئی نئی چیزیں واضح ہو رہی ہیں ۔ ہم جو بہت بہادر بنے پھرتے ہیں درحقیقت اسی ظالم کی مانند ہیں جس کا بس کمزوروں پر چلتا ہے ۔ ہم بظاہر ظلم اور کرپشن کے خلاف لکھتے ہیں اور ظالموں کو للکارتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اصل ظالم کو للکارنے کی جرات ہی نہیں رکھتے ۔ یہ ایک تلخ سچ ہے کہ اوبامہ ، ہیلری ، ڈونلڈ یا پیوٹن نے کبھی اپنے خلاف لکھنے والے پاکستانی کالم نگاروں کا پیچھا نہیں کیا ۔البتہ گلی کے کونسلر کے خلاف کالم لکھ کر دیکھیں تو معلوم ہو کہ وہ قبر تک پیچھا کرتا ہے ۔ہم جب مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں تو عموما اصل ذمہ دار کی بجائے کسی ایسے شخص پرسارا ملبہ ڈال دیتے ہیں جویا تو ان مسائل کا حقیقی ذمہ دار نہیں ہوتا یا پھر ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے گا ۔ اکثر تو وہ بھی ہماری طرح پسا ہوا شہری ہوتا ہے اور چند ہزار تنخواہ لے کر بمشکل زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہوتا ہے ۔
یہی وہ نفسیاتی رویہ ہے جس نے پورے ملک کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے ۔ ہماری دانشوری کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے جیسے مزدور شخص کی موٹرسائیکل ، ریڑھی اور دکان کو آگ لگا کر حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں ۔ ہیلی کاپٹر اور جہاز پر سفر کرنے والوں کے خلاف احتجاج بس میں سفر کرنے والے کا راستہ روک کر کرتے ہیں ۔ حکومت کا غصہ اس پولیس کانسٹیبل پر نکالتے ہیں جو چند ہزار کی تنخواہ پاتا ہے ۔ ایک ایساپولیس کانسٹیبل جو کہ سرے سے پالیسی ساز ہی نہیں ہے ۔ کسی سرکاری فیصلے میں اس کا ہاتھ نہیں ۔ اس کی کسی سیاسی جماعت سے نہ تو ذاتی دشمنی ہوتی ہے اور نہ ہی ذاتی دوستی ہے ۔ایک حکومت میں اسے جس شخص کو گرفتار کرنے کا حکم ملتا ہے اگلی حکومت میں وہ اسی شخص کے مخالف کو گرفتار کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک جماعت کے وزیر کی حفاظت پر مامور پولیس سکواڈ چند سال بعد مخالف جماعت کے وزیر کی حفاظت پر بھی اسی طرح مامور ہوتا ہے ۔ہم اس پولیس اہلکار ، پروٹوکول یا ان کی ڈیوٹی پر تو طویل کالم لکھ دیتے ہیں لیکن اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ یہ سب پارلیمنٹ کے ذریعے ختم ہوتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں ایسا بل ہی پیش نہیں کیا جس سے ہماری پولیس جدید دنیا کی پولیس کے مقابل کھڑی ہو سکے ۔
ہم آج بھی پولیس اورتعلیم کے لئے انتہائی کم بجٹ خرچ کرتے ہیں ۔ ہم خوفناک اور زہریلی گیسوں میں سانس لے رہے ہیں لیکن جنگلات کی اہمیت کے بارے میں لکھنے پر آمادہ نہیں ۔ ہمارے یہاں تعلیم کا معیار اب بھی انتہائی پست ہے لیکن ہم یہ معیار بہتر بنانے کے لئے بھی کوشش نہیں کرتے ۔ ہمارا ملبہ صوبے کے وزیر اعظم اور وزیر اعلی ٰپر گرتا ہے یا پھر ہم عام اہلکار اور عام استاد پر گرجتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں دونوں نے ہی براہ راست ہمارے خلاف کوئی ایکشن نہیں لینا ۔ کالم یا سٹیٹس لکھتے وقت ہم نہ تو یہ زحمت کرتے ہیں کہ اصل ذمہ داروں کا معلوم کریں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے کہ تحقیق کر لیں ۔ ہمارے کالم تحقیقی ، دلیل ، اور حقائق سے عاری ہوتے جا رہے ہیں ۔ اگلے روز لاہور پریس کلب میں ایک بزرگ صحافی کہ رہے تھے کہ صبح میں نے 20 اخبارات کے کالم پڑھے اور مجھے دکھ ہوا کہ آج بھی ان میں کالم ایک بھی نہ تھا ۔
سچ کہوں تو ہم پولیس اہلکار ، استاد اور عام سرکاری ملازمین کے مجرم ہیں ۔ ہم بھی وہی کر رہے ہیں جو ظالم وڈیرہ ہاریوں کے ساتھ کرتا ہے ۔ہمارا جس پر بس چلتا ہے ہم اسے الفاظ کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ ہمارا مجرم کوئی اور ہے ۔ پاکستان کے ہزاروں شہری احتجاجی مظاہروں میں اپنی موٹر سائیکل ، گاڑی اوردکانوں سے محروم ہو چکے ہیں ۔ ہم نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کے وقت بھی نقار خانے میں یہی صدا لگائی تھی کہ اپنے جیسے عام شہریوں کی املاک جلا کر ہم مجرموں کی فہرست میں کھڑے ہو رہے ہیں، خدارا ایسا نہ کریں اور اب بھی یہی التجا کرنے پر مجبور ہیں کہ سوشل میڈیا پرچند ہزار کمانے والے اہلکاروں ، اساتذہ ، کلرکوں اور سفید پوش طبقے کی نمائندگی کرنے والوں کو برا بھلا کہہ کر ہم ہی مجرم بن رہے ہیں ۔ہم اختیار ملنے پر پاگل ہو جانے والے آمروں کے خلاف لکھتے ہیں۔ہم قصر تعمیر کرنے والے معمار کے ہاتھ کاٹنے والے شہنشاہ کو جابر کہتے ہیں لیکن زبان نہ جلائیں تو عرض کروں ہم بھی اسی شہنشاہ جیسے ہیں ۔ ظالم ، اجڈ اور خود غرض۔