گذشتہ دنوں فیس بک پر ایک تصویر بہت پسند کی گئی جس کی تفصیل میں یہ لکھا گیا کہ محمد علی محمدیان نامی ایک کرد استاد نے اپنی گنج محض اس لیے کروا لی کہ ان کے ایک شاگرد کو کینسر کی وجہ سے اپنے بالوں سے محروم ہونا پڑا تھا۔
انہوں نے محسوس کیا کہ بچہ کلاس میں احساس کمتری کا شکار ہوگا لہٰذا انہوں نے خود کو بھی اس کے رنگ میں رنگ لیا۔ اصل میں لائق تحسین تو ایسے اساتذہ ہیں جو جوہری کی طرح ہیرے کی پہچان رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں کینسر ایک عام بیماری ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ ابھی تک ترقی یافتہ ممالک بھی اس کا مکمل علاج تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کی واضح مثال برطانیہ اور چین ہیں۔
چین کے نیشنل کینسر سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال چین میں کینسر کے 34 لاکھ کیس رجسڑڈ ہوئے۔ چین میں سب سے زیادہ کینسر پھیپھڑوں میں دیکھنے میں آیا ہے جس کی بنیادی وجہ خواتین اور بزرگوں میں تمباکو نوشی ہے۔ یہاں کینسر سے سالانہ 7500 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اب برطانیہ کو دیکھ لیں، وہاں بھی صورتحال مایوس کن ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2020ء میں برطانیہ میں کینسر کے عارضے میں مبتلا افراد کی تعداد مجموعی آبادی کے نصف تک پہنچ جائے گی۔ اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں کیمیائی فضلے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے وہاں بچوں کے دماغ میں رسولیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں نوجوان لڑکیوں میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ ہے اور افسوسناک حد تک یہ شرح ایشیا میں سب سے بلند ہے۔ یہاں ہر 9 میں سے ایک لڑکی کو بریسٹ کینسر ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریباً 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ پان، سگریٹ، گٹکے اور سپاریوں کا استعمال بھی پاکستان میں منہ اور گلے کے کینسر کی بنیادی وجہ ہے۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ اس موذی بیماری سے مرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں یا خواتین۔ تو حیران کن حد تک مردوں میں یہ تناسب زیادہ ہے۔ مردوں میں موٹاپے کے باعث پروسٹیٹ کینسر کے امکانات سو فیصد ہوتے ہیں اور برطانیہ میں ہر آٹھ میں سے ایک مرد اس میں مبتلا ہے۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے کینسر سے مرنے کے امکانات 70 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے حالات بھی اس حوالے سے کچھ اچھے نہیں ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی میں کینسر کے نامور ٹاٹا ہسپتال میں روزانہ 5 سو سے ایک ہزار تک مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے اور ہر سال 25 سے 30 ہزار تک نئے کیس رجسڑڈ ہوتے ہیں۔ بہت سے مریض اب فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں کیونکہ اس ہسپتال میں اتنے زیادہ مریضوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
لیکن پھر بھی کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔ حیرت انگیز طور پر کینسر کی تشخیص آج کل اسمارٹ فون سے بھی ہو رہی ہے اور آنکھ کی تصاویر اتار کر دیکھا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں ہر سال 50 بچوں میں آنکھ کا کینسر تشخیص ہوتا ہے اور اس کا شکار زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ ہم کینسر سے کیسے بچیں، چند احتیاطی تدابیر بہت ضروری ہیں۔
مریض کے لیے علاج سے زیادہ اہم اچھا اور دوستانہ ماحول ہے۔ جنسی تعلقات میں فطری انداز اپنانے کو بھی نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ اسی طرح پان، سگریٹ، تمباکو نوشی، شراب نوشی، زیادہ وزن اٹھانا بھی کینسر کی وجوہات ہیں۔ خواتین کو سیاہ زیر جامے پہننے کی عادت کو ترک کرنا چاہیئے کیونکہ یہ بھی بریسٹ کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ تو آئیں اپنی غذا میں سبز چائے، سبزیوں، مرغی، مچھلی، پھلوں اور دالوں کا ایک تناسب رکھیں تاکہ ہم اس مرض کو شکست دے سکیں۔