The news is by your side.

دہشت گردی اور جدید دور کے تقاضے

جنگیں جذبات سے نہیں ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر جذبہ ختم ہو جائے تو ہتھیار بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دو لشکر آپس میں ٹکرائے ہوں اور ایک لشکر ہتھیاروں کی بجائے محض جذبات کی پوٹلی اٹھا لایا ہو ۔ ہمارے سامنے اپنے ہی ملک کی مثال موجود ہے ۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجوہات پر کئی کتب لکھی جا چکی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کے پاس اپنی اپنی داستان ہے ۔ میدان جنگ کے سپاہی مگر کوئی اور ہی داستان سناتے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر(ر) شبیر بھی اپنے ہی ملک میں گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے ۔ جم خانہ کی کئی شامیں ان سے یہی داستان الم سنتے ہوئے گزری ہیں ۔ ایک شام ان سے پوچھ ہی لیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ تو خود فوج تھی ۔ اتنا ہی عشق تھا تو ملک ہاتھ سے جانے کیوں دیا ؟ میجر صاحب تلخی سے بولے ‘ ہم نے ہاتھ سے جانے دیا تھا ؟ ہم جو وہاں شہادت کا جذبہ لے کر گئے تھے ؟یہ تم تھے جنہوں نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر میدان میں پھینک دیا تھا کہ جاؤ لڑ کر دکھاؤ ۔

کونسی فوج ہے جس کو ہتھیار دیئے بنا جنگ میں دھکیل دیا گیا ہو ؟ کونسی قیادت ہے جو جنگ کے دوران کمک مانگنے والی فوج سے کہے کہ ہم نے جہاز بھیجا تومغربی بارڈر پر جنگ کے دروازے کھل جائیں گے ۔ میجر صاحب کا تلخ لہجہ اپنی جگہ لیکن ان کی بات میں وزن تھا ۔ مشرقی پاکستان کی جتنی داستانیں ہم نے پڑھی ہیں ان میں بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں لڑنے والی فوج کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں تھے ۔ جنگ سے بچنا ضروری تھا لیکن جب جنگ مسلط ہو جائے تو پھر محتاط لہجہ شک و شبہ میں ڈالتا ہے ۔

سن 70کی دہائی میں صرف فوج کو ہی اس صورت حال کا سامنا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی لگ بھگ تمام تر فورسز کو ایسی ہی مشکلات کا سامنا تھا ۔ کیا عجیب داستان ہے کہ ہم ایک بڑی جنگ لڑ چکے تھے ۔ سرحدی کشیدگی شہروں میں بیٹھے لوگ محسوس کر رہے تھے ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد تو ہمیں انتہائی خطرناک صورت حال کا سامنا تھا ۔ ایک طرف ہم ایٹم بم بنانے جا رہے تھے ۔ دوسری جانب ہمیں دشمن کی پراکسی وار کا سامنا تھا ۔ بھارتی جاسوس اور تربیت یافتہ ایجنٹ فعال ہو رہے تھے ۔ پاکستان تب سے مسلسل حالت جنگ میں ہے ۔ افغان وار شروع ہوئی تو پاکستان میں را کے ساتھ ساتھ خاد ، سی آئی اے اور دیگر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی بھی بھرمار ہو گئی ۔ نوے کی دہائی میں پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں دھکیل دیا گیا ۔ سابق گورنر شاہد حامد ایک بار بتا رہے تھے کہ ان کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ شیعہ سنی فسادات میں ملوث ملزمان سے تفتیش کرنے والے آفیسر نقاب پہن کر تفتیش کرتے تھے کہ کہیں ملزم انہیں پہچان نہ لے ۔ عدالتوں میں ایسے مقدمات کی یا تو ضمانت ہو جاتی تھی یا پھر مقدمہ لٹکا دیا جاتا تھا ۔ ان فسادات پر قابو پایا گیا تو طالبانائزیشن کے نام سے ملک بھر میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تاحال مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا ۔

اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کو مسلسل ایسے حالات کی جانب دھکیلا گیا ہے جن سے عام شہری عدم تحفظ کا شکار ہو ں۔ غیر ملکی ایجنٹوں سے لے کر ہمارے اپنے سہولت کاروں تک کا سہارا لے کر کسی نہ کسی چھتری تلے ملک میں فسادات برپا کئے گئے ہیں ۔ عام طور پر اس صورت حال میں فوج ، رینجرزاور دیگر فورسز متحرک رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے اس معاملے میں اس فورس کو نظر انداز کئے رکھا جس کودراصل یہ کام کرنا تھا ۔ ہم فوج اور رینجرز سمیت دیگر فورسز کو اس لئے بھی مشکل حالات   میں آبادی میں بلاتے رہے کہ ان کے پاس بہتر اسلحہ ، زیادہ وسائل اور لاجواب ٹریننگ ہے ۔ ہمارے پالیسی سازوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ آبادی میں سکیورٹی فراہم کرنا پولیس کا کام ہے لہذا پولیس کو زیادہ وسائل ، بہتر تربیت اور اچھا اسلحہ فراہم کر کے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ یہ تو سامنے کی مثال ہے کہ پولیس کا ہر علاقہ میں اپنا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس محدود مدت کے لئے آنے والی فورسز کی موجودگی میں کارروائیاں تھم جاتی ہیں لیکن ان کے جاتے ہی شر پسند عناصر پھر سر اٹھانے لگتے ہیں ۔ ہم کئی دہائیوں سے یہی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ فورسز آتی ہیں، شدت پسندوں سے لڑتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ۔ اس کے بعد نرسریاں نئے شدت پسندوں کو پروان چڑھا دیتی ہیں اور ہم پھر فورسز کی راہ تکتے ہیں ۔

مجھے خوشی ہے کہ کئی دہائیوں سے جاری اس آنکھ مچولی کا حل نکال لیا گیا ہے ۔ اگلے روز آئی جی آفس میں سینئر پولیس افسران کی ایک بریفنگ میں شرکت کا موقع ملا ۔ مجھے خاص طور پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا پنجاب پولیس کو جدید آئی ٹی سسٹم سے منسلک کر چکے ہیں ۔ یہ دور جدید کی اہم ضرورت تھی۔ ہمیں پہلی بار کئی ایسے سافٹ ویئرز کا علم ہوا جو پنجاب پولیس اپنا چکی ہے ۔ ان میں خاص طور ’’کرائم میپنگ ایپ ‘‘ اور’’ کرائم انٹیلی جنس سسٹم ‘‘ میری دلچسپی کا حامل تھا۔ جب کوئی پولیس آفیسر کرائم سین پر جاتا ہے تو وہ وہاں کی تمام تفصیلات’’ کرائم میپنگ ایپ‘‘ میں فیڈ کر دیتا ہے ۔ یہ ایپ جرم کی نوعیت ، طریقہ واردات ، وقت ، علاقہ اور دیگر معلومات جمع کرتی ہے ۔ اسی طرح کرائم انٹیلی جنس سسٹم بھی ایکسائز ، نادرا ، ڈرائیونگ لائسنس مینجمنٹ سسٹم ، موبائل سبسکرائبرز ،ہوٹل آئی سمیت دیگر ڈیٹا بیس کے ذریعے معلومات حاصل کر کے مجرم سے منسلک رابطوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس طرح نہ صرف مجرم بلکہ اس کے سہولت کاروں کی بھی نشاندہی ہو جاتی ہے ۔

گذشتہ کچھ عرصہ میں پنجاب پولیس انہی جدید سافٹ ویئرز کی مدد سے مجرموں کی پناہ گاہوں ، علاقوں کے کرائم ریٹ اور دیگر معلومات کی بنیاد پر کرائم زون کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ ان سافٹ ویئرز میں ڈیٹا اکٹھا ہوتا رہتا ہے جس سے یہ نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ کس علاقہ میں زیادہ جرائم ہو رہے ہیں اور کس تھانہ کی حدود میں جرائم پیشہ افراد متحرک ہیں ۔ ان معلومات کی بنیاد پر مجرموں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کریڈیٹ آئی جی پنجاب کو جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف پولیس کی بہتر تربیت اور اہلکاروں کو جدید اسلحہ کی فراہمی پر توجہ دی اور جدید سافٹ ویئرز ہی نہی بلکہ آئی ٹی اور مانیٹرنگ کا مکمل نظام متعارف کرا دیا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ سب بہت تاخیر سے نہیں ہو رہا ؟ آخر کیوں ہم ہزاروں شہریوں کی شہادتوں کے بعد ہی اس جانب متوجہ ہوئے ؟ اگر چند برس قبل پولیس افسران اس جانب متوجہ ہو جاتے تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی ۔حکومتوں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران کو بھی اس حوالے سے سوچنا ہو گا ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اگر ہم نے شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ہمیں وقتی حل تلاش کرنے کی بجائے اپنی پولیس کی تربیت اور وسائل بڑھانے ہوں گے ۔ موجودہ آئی جی پولیس کے دور میں پنجاب پولیس جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے لگی ہے ۔ اس کے باوجودسسٹم کی مکمل تبدیلی کے لئے ہمیں شاید مزید کچھ عرصہ  انتظار کرنا پڑے۔ جدید دور کے تقاضے ابھی مزید اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ ان لمحات میں سرکار بھی پولیس کے وسائل بڑھانے پر بھی توجہ دے کیونکہ محض جذبات کی پوٹلی فتح کا باعث نہیں بنتی ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں