The news is by your side.

غیر قانونی بھرتیاں اورہمارا مایوس نوجوان

چند دن پہلے ایک سرکاری دفتر میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے ملنے کا اتفاق ہوا ، عمر رسیدہ اور تجربہ کار یقینا وہ تھے لیکن کیا اب یہ ان کے آرام کا وقت نہیں ؟ یا دوسرے معنوں میں یہ کہنا چاہیے کہ کیا نوجوانوں کا حق نہیں کہ انھیں ملازمت کے مختلف مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ ان میں مایوسی ختم ہو سکے ؟۔

ایک نوجوان صحافی ہونے کی حیثیت سے دن رات میرا سابقہ بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے لیکن میرے حلقہ احباب میں کچھ نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں بالکل مایوس ہیں ، بالکل ناامید ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہمارے محکموں میں غیر قانونی بھرتیاں اور میرٹ کا قتل ہے ۔ایک طرف ڈائر یکٹرز لیول کے عمر رسیدہ لیکن تجربہ کار افراد موجود ہیں جو نہ صرف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہاں ہیں بلکہ انھیں یہ بھی یقین ہے کہ اگر وہ نہیں ہوں گے تو ان کے نالائق سپوتوں کا بھی اس نوکری پر حق ہے ۔

دوسری جانب ایم اے پاس نوجوان رکشہ چلانے پر مجبور ہیں جنہیں ٹیسٹ اور انٹرویو کی ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے ۔ آج کل سفارش اور ریفرینس کی بہت اہمیت جو ہے ۔ آج کا نوجوان جب مسائل کے انبار سے گھبرا جاتا ہےتو معاشرے میں شدت پسندی اورمایوسی جنم لیتی ہے جو کہ ہمارے نوجوان طبقے کے خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔

ایک ایسا خواندہ بچہ یا ہنر مند نوجوان جس کو فکر معاش ہے اور وہ کما نہیں سکتا تو ظاہر ہے کہ وہ دہشت گرد بن جاتا ہے ۔ کیوں کہ جب کوئی چیز جائز طریقے سے حاصل نہیں ہوتی انسانی فطرت ہے کہ وہ اسے غلط ذرائع سے پانا چاہتا ہے۔ بہت سے نوجوان خود کشی کرلیتے ہیں کیونکہ وہ معاشرے کا سامنا نہیں کر سکتے ۔ حکمران نوکریاں دینے کے بہت سے دعوے کرتے ہیں لیکن پھر خود ہی حکومت ناانصافی کر کے خود ہی منصف بن جاتی ہے ۔

شاید حفیظ میرٹھی نے اسی موقع کے لئے یہ شعر کہا تھا

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں خود کشی کی ہے

اب اگرکچھ زمینی حقائق کے بارے میں بات کروں کہ چند چیزیں میرے سامنے آئیں ۔

ایک وفاقی یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق یونیورسٹی میں ۳۰ غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف نوٹس لیا گیا اور ان کا کیس نیب کے حوالے کیا گیا ہے ۔ اب ان تیس افراد میں سے دس افراد ایسے تھے جو جعلی ڈگریوں پر فیکلٹی ممبر کے عہدے پر فائز تھےاور تیس تیس لاکھ ماہانہ تنخواہ پا رہے تھے ( بحوالہ نوائے وقت ) اسی طرح سوئی سدرن میں ڈاکٹر عاصم کے دور میں بہت سی گھوسٹ بھرتیاں ہوئیں ۔ یہاں سیاسی دباؤ کے تحت ڈھائی ہزار غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں ۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں محکمے سے فارغ کئے گئے ملازمین کو بحال کر کے ان کے واجبات کی ادائیگی کی گئی جس سے بھی ملکی خزانے پر بوجھ پڑا ۔

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے دور میں بھی غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں مذکورہ وزیر نے اپنی سبکدوشی سے محض دو دن قبل مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرتی کی ۔

یہ سب کہانی آج کی تو نہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ آج کل زیادہ ہوگئی ہے ، ہمارے نوجوان جنہیں اقبال نے شاہین قرار دیا تھا وہ اپنی ناامیدی کی وجہ سے کرگس بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہماری ملکی آبادی کا زیادہ تر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ، کیا اس ملک کے وسائل پر نوجوان طبقے کا کوئی حق نہیں ؟ میں اس بات سے بالکل متفق نہیں ہوں کہ نئے آنے والے افراد محنت نہیں کرتے ، میرے مطابق نوجوانوں میں زیادہ انرجی ہوتی ہے اور تجربے کے لئے جب تک انھیں موقع نہیں دیا جائے گا ، ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا تو وہ کس طرح تجربہ کار بنیں گے ؟۔

لیکن میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے بھی سیکھنے کا موقع ملنا چاہیے کیونکہ صرف نئے آئیڈیاز ہی کسی کام کے نہیں جب تک ان کے پیچھے دانائی اور تجربہ نہ ہو ۔ ہمارے بزرگوں نے بھی اس ملک کے لئے دیانتداری سے کام کیا ہے۔لہذا آج کل کے نوجوان سارا ملبہ صرف سسینئرز پر نہیں ڈال سکتے ۔ کیونکہ آج کے نوجوان کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے کسی بڑے کی بیساکھی کا سہارا نہیں لینا ۔ اکثر نوجوان ایسے ہیں کہ بس پکا پکایا حلوہ ہی کھانا چا ہتے ہیں ان میں سیلف موٹیوشن نہیں ہے ۔

آج کی نسل یہ یاد رکھے کہ خود آمادگی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ‘  بہتر کیرئیر کی تلاش میں نوجوان طبقے کو سینئرز بہت اچھا گائیڈ کر سکتے ہیں ۔اور نوجوان  بھی اپنےان سینئرز حضرات کی عزت و تکریم سے  بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ بات صرف جذبے کی ہے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں