متحدہ عرب امارات نے برج خلیفہ پر بھارتی پرچم کیا لہرایا گویا بھارتی میڈیا کو نر یندر مودی کی پاکستان مخالف خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کے گن گانے کا موقع مل گیا۔ اورانھوں نے مسلم دنیا میں پاکستان کو تنہا کر دینے کا نیا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت، متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کو روس کی جانب سے لگنے والی حالیہ چوٹ (جو کہ اسےروس کی بھارت کی بجائے پاکستان کی طرف جکھاؤ کے باعث پہنچی) کا مرہم سمجھ رہا ہو۔ بہرحال، جو بھی ہے لیکن یہ بھارت کی کوئی کامیابی نہیں ہے بلکہ متحدہ عرب امارات اسی طرح اپنے دوست ممالک کے پراچم برج خلیفہ پر سال 2016 میں بھی لہراتا رہا ہے۔ مارچ 2016 کو کویت، ستمبر 2016 کو سعودی عرب کا پرچم لہرایا گیا اور اومان کے قومی دن کے چھیالیسویں سالگرہ کے موقع پر اومان کا پرچم لہرا کرمتحدہ عرب امارت نے اومان کو خراج تحسین پیش کیا۔ گزشتہ سال پاکستان کے سترویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی برج خلیفہ پر لہرایا گیا۔ لہٰذا بھارتی میڈیا سے ہماری عاجزانہ التماس ہے کہ وہ اپنی عوام کو تصویر کے دونوں رُخ ضرور دیکھائیں اور بے پرکی اُڑانے سے ذرا اجتناب فرمائیں۔
روز اول سے ہی خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت نہ صرف برادرانہ رہی ہے بلکہ انکے ساتھ پاکستان کے اقتصادی و معاشی تعلقات بھی ہمیشہ فقید المثال رہے ہیں۔ بالخصوص اگر بات کی جائے متحدہ عرب امارت(یواےای) کی تو دونوں ممالک کے مابین قربتوں کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا یواے ای میں بطور سیکیورٹی ایڈوائزر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اگر پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو اس کی افواج کی تربیت سازی میں معاونت دی تو متحدہ عرب امارات نے بھی تقریباً 7 لاکھ پاکستانیوں کے لئے اپنی سرزمین پر روزگار یقینی بنایا۔ جو کہ 2014 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کُل ترسیلاتِ زر کی آمدن کا 20 فیصد ہے جو کہ 3.1 بلین امریکی ڈالر ہیں۔ اور یہی نہیں پاکستان کی کل برآمدات کی آمدن کا7 فیصد حصہ متحدہ عرب امارات سے آتاہے جو کہ لگ بھگ 1.75 بلین امریکی ڈالرہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کو خوراک اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرتا ہے اور تیل اور سونا اس سے درآمد کرتا ہے جو کہ ( درآمدات) 7.3 بلین امریکی ڈالر کے برابر ہیں۔ اس بنیادی کاروباری حساب کتاب کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں تیل ،گیس، مائننگ، پیٹرولیم ریفائنگ اور بینکنگ جیسے اہم ترین شعبوں میں سرمایہ کاری موجود ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے۔ پاکستان کے ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے نے گزشتہ دہائی سے کافی ترقی کی ہے اور یہ شعبہ بھی ذرا سی حکومتی توجہ کے باعث خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات سے متعدد سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب راغب کرنے میں کافی موذوں ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین بینکنگ انڈسٹری میں بھی نہایت ہی اہم سرمایہ کاری موجود ہے جن میں متحدہ عرب امارات کے بینک الفلاح، اسلامی بینک، برج بینک اور متعدد دوسرے بینک پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کے حبیب بینک اور یونائٹڈ بینک متحدہ عرب امارات میں70کی دہائی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے۔ ان تمام اعدادو شماراور دیگر باتوں سے یہ تو واضح ہو گیا کی پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی مابین تعلقات کی اقتصادی کڑی کس قدر مضبوط ہے۔ تاہم یہ بات بھی غور طلب ہے کہ بھارت متحدہ عرب امارات کو سٹونز اور قیمتی پھتر اور نایاب موتی برآمد کرتا ہے۔ اور اس کی برآمدات میں امریکہ کے بعد متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر آتا ہے اور ایک بھارتی اخبار ” دی انڈین ایکسپریس” کے مطابق بھارت اپنے ترسیلات زرکا 52.1 فیصد خلیجی ممالک سے کماتا ہے۔ ایسے میں برج خلیفہ پر بھارتی پرچم کا لہرائے جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ہاں اگرکوئی تشویش طلب بات ہےتو وہ ہے بھارتی میڈیا کی پاکستان اورمتحدہ عرب امارات کے تعلقات پر کاری ضرب لگانے کی مزموم کو شش۔۔۔ جی ہاں! بھارت ہی افغانستان میں حالیہ بم دھماکوں کی زد میں آکرجاں بحق ہونے والے ہمارے دوست ملک (یواے ای) کے پانچ ڈپلومیٹک آفیشلز کے شہادت کو پاکستان سے جوڑ کر، خطے میں اپنے خوفناک ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ بھارت، افغانستان کو تو اپنا آلہ کار بنا ہی چکا ہے اب متحدہ عرب امارات کو بھی اپنے “جھوٹ کے طلسم” کا اسیر کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اب اپنےخلاف ایسے پروپیگنڈے کا نہ صرف سدباب کرنا ہو گا، بلکہ اپنے دوست ممالک کو بھی بھارتی جھوٹ کے طلسم سے دور رکھنے کے لئے بھی، خاطر خواہ تگ و دو کرنی ہو گی۔
اب ہمیں اس حقیقت کو بخوبی سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات جوش و جذبے یا ذاتی و انفرادی خواہشات کی ایما پراستوارنہیں ہوتے۔ ممالک کے مابین دوستیاں اور دشمنیاں ان کے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہیں اورقومی مفادات بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی مفادات بدلتے ہیں ویسے ہی ملکوں کے مابین باہمی تعلقات کی نوعیت میں بدلاؤ بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہرملک خود اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے اوراس کی خارجہ پالیسی اسکے قومی مفادات کی ہی غماز ہوتی ہے۔اب پاکستان کو بھی آگے بڑھ کرہر جگہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ خود کرنا ہوگا ۔ بلا شبہ ”پاک چین اقتصادی راہداری“ منصوبے سے بہت سے ممالک کے معاشی مفادات کو زک پہنچنے کا خدشہ ہے مگر پاکستان کو چاہیےکہ وہ اپنے تمام دیرینہ دوست ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور بلا وجہ خطے میں اپنے مخالفین میں اضافہ کرنے سےاجتناب برتے۔
مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ بالکل درست دیکھائی دیتی ہے کہ عالمی سیاست میں جس تیزی کے ساتھ تغیرات وقوع پذیر ہو رہے ہیں پاکستان اسی تیزی سے اپنی اندرونی سیاسی مسائل میں اُلجھتا جا رہا ہے۔ اور اسکےعالمی سیاست پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ کر پانے کی وجہ سے پاکستان مخالف قوتوں کو اسکے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ اب اپنے اندرونی سیاسی مسائل کو حل کرنے میں مزید تاخیر سے کام نہ لے ۔ کیونکہ اس کی کی قیمت اب ہمارے ملک کو وزیراعظم صاحب کی ملکی مفاد کے حامل مسائل پرعدم توجہ کی صورت میں چکانا پڑرہی ہےجو کہ درحقیقت ایک خطرناک امر ہے۔