سندھ میں جس جماعت نے روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی انسانی ضروریات کو سیاسی نعرہ بناکر ووٹ لیے آج اسی جماعت نے اپنے ہی ووٹرز سپورٹرز سے روٹی کپڑا اور مکان تو چھینا ہی چھینا مگر اب انسانی ہمدردی کا حق بھی چھین لیا ہے. پاکستان میں ہزاروں معصوم جانوں کا ضیاع ہونے کے باوجود ہمارے حکمران ہیں کہ نام نہاد مذمت سے نکال کرعملی اقدام نہیں کررہے ہیں. ہم سانحہ اے پی ایس کی بات کریں‘ سانحہ صفورا گوٹھ‘ سانحہ کوئٹہ‘ یا سانحہ باچاخان یونیورسٹی کی بات کریں ہم نے کسی بھی سانحے کے بعد کوئی حکمت عملی نہیں بنائی کہ آئندہ ایسے دہشت گردی واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ کرتے‘ ذمہ داروں کا تعین کرتے‘ سارے سانحات‘ واقعات‘ حادثات‘ سب ایک طرف اور سانحہ سہون شریف میں 100 سے زائد معصوم عوام کی جانوں کی ضیاع کے بعد ان انسانی نعشوں کی ہونے والی بے حرمتی نے انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے جس کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیے بلکہ ایسے لاپروا حکمرانوں کی کرسیاں بھی چھین لینی چاہیے جن کی حکمرانی میں یہ سب انسانی ذلت کے واقعات رونما ہوں۔
شہدائے سہون کے اعضا کچرا کنڈی سے ملنے کا انکشاف
سندھ مین سہون شریف لال شہباز قلندر کے مزار پر 16 فروری 2017 کو ہونے والے خودکش بم دھماکے کے بعد ایک گھنٹے تک متاثرین کے ریسکیو کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تھا مگر جیسے تیسے کرکے متاثرین نے اپنی مدد آپ اور دیگر این جی اوز کی مدد سے خود کو اور اردگرد موجود متاثرین کی امداد کی۔ تاخیر سہی مگر کچھ لوگ اپنے آبائی شہر پہنچے اور اپنی نااہلی کو بھی آنکھوں سے دیکھا , سب نے تصاویر بنوائیں‘ بیانات دیے ,دعوی کیے اور چلے گئے مگر کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ آیا مزار کا احاطہ کلیئر ہوگیا ؟ کیا تمام متاثرین کی ریسکیو کے لیے اقدامات کیے گئے ؟ کسی بھی حکمران جماعت کے نمائندے نے اس بنیادی ذمہ داری پر دھیان نہیں دیا بس سب نے مذمت کی۔ ملک میں سیکیورٹی بڑھادی اور وغیرہ وغیرہ لیکن سب نے اس بات کو بالکل نظر انداز کردیا کہ اتنے بڑے سانحے سے متاثر ہونے والا حضرت لعل شہباز قلندر کا مزار اور اس کے ارد گرد کا علاقہ کلئیر کرلیا گیا ہے؟ دھماکے کی زد میں آنے والے لوگوں کے اعضا کا کیا بنا؟۔ کیا ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے ان کی شناخت کے لیے اقدامات کیے گئے ؟ ان تمام باتوں کے نظرانداز ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سانحہ سہون شریف کے 36 گھنٹے بعد سانحہ سہون شریف میں دھماکے سے متاثر ہونے والے چند ایک افراد کے اعضا کچرے میں اور کچھ کے نعشیں نالے میں ملیں جوکہ انسان کے انسان ہونے کیا تذلیل ہے۔ اور اس پر سندھ کی حکمران جماعت کے بیانات بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
خدارا! انسانوں کے ساتھ انسانیت کے جنازے نہ نکالیں جائیں۔ جس شہر نے پاکستان پیپلزپارٹی کو تین وزیراعلیٰ دیے بشمول موجودہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ ۔ آج اگر ہم دادو‘ سہون یا پھر پورے دیہی سندھ کی حالت دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لوگ کس طرح سے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ شہری سندھ کی ہم کیا بات کریں وہاں تو حکمران جماعت کا ایک نمائندہ نہیں مگر جہاں سے عوام کے ووٹ لے کر پیپلزپارٹی حکومت میں آتی ہے کم ازکم ان کے لیے ہی کچھ کرلیتے, کچھ سہولت ہی دے دیتے تو اس طرح لوگ آپ کی بے حسی کا نشانہ نہ بنتےاور دھماکے کے بعد زخمیوں اور لاشوں کو بروقت اسپتال منتقل کردیا جاتا تو یوں انسانی اعضا کچرے کے ڈھیر میں یا نالوں میں نہ ملتے۔
ہمارے ملک کے حکمران اگر اپنی قوم کی حفاظت کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان کی لعشوں کی بے حرمتی بھی نہ کریں
اب ہمارے لوگوں کو بھی ہوش کے ناخن لے کر ایسے حکمرانوں سے جواب طلب کرنا چاہیے کہ ہم نے تمہیں ووٹ دیے , تمہارے لیے جان دی اوربدلے میں تم نے ہمیں کیا دیا؟ ہماری نعشوں کی بے حرمتی ؟۔