انتہا پسندی ایک سوچ کا نام ہے جو ہمارےمعاشرے میں اپنی جڑیں پھیلائے بیٹھی ہے اوراس سوچ کو پروان چڑھانے میں شدت پسندوں کے معاونین اور سہولت کار ایک سیڑھی کا کام کرتے ہیں۔ بلا شبہ یہ شدت پسندانہ سوچ ایک دیمک ہے جو بلا امتیاز(یعنی کسی مذہبی جماعت،لسانی گروہ یا فرقےاور تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کمیونٹی کے فرق کے بغیر) کسی بھی معاشرے کے کئی قابل اذہان کو چاٹنے اور نرم قلوب کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس لعنت سے نبردآزما ہونے کے لئے ایک مسلسل جدو جہد میں برسرِپیکار نظرآتے ہیں ان میں سے بے شمار ممالک نے تواس ضمن میں متعدد جامع حکمت عملیاں بھی ترتیب دیں جن میں برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، مصر کےعلاوہ دیگراہم ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ ان ممالک کے تجربات سے مستفید ہونے کےلئے ان کے انسدادِ دہشت گردی سے متعلقہ امور کے ماہرین سے فوری روابط قائم کرے۔
پاکستان میں بھی بلاشبہ، انسدادِ دہشت گردی کے ضمن میں کو ششیں جاری و ساری ہیں مگر وہ صرف اورصرف عسکری اقدامات ہیں جو فوری طور پر افواجِ پاکستان کی جانب سے مزید دھماکوں اور جانی ضیاع کو روکنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ جن میں مشتبہ افراد کو گرفت میں لانا سر فہرست ہے۔ مگر سیاسی حکومت کی جانب سےاس ضمن میں کوئی بھی پیش رفت ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
حکومت کو چاہیے کہ فوج کے شانہ بشانہ شرپسندی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے یہ وقت بہت قیمتی ہے اسے پھر سے ضائع نہ ہونے دے اورسافٹ کاؤنٹر ٹیررازم کے ضمن میں فوری طور پرکوئی نہ کوئی پیش رفت ضرور کرے۔ اس سے شرپسند تنظیموں پر ایک دباؤ پڑے گااوروہ مزید دھماکوں سےاجتناب برتیں گی۔ نیزاس سے (ٹیرر ویو) دہشت گردی کی حالیہ لہر تھم جانے کا بھی قوی امکان ہے۔
پاکستان کاحالیہ اندرونی ماحول سافٹ کاؤنٹرٹیررازم کے تحت جن اقدامات کا متقاضی ہےوہ بالترتیب لٹریری(ادبی)، پولیٹیکل (سیاسی) اور کمیونل (یعنی سماجی) اقدامات ہیں۔
جیسا کہ یہ حقیقت سب پرعیاں ہے کہ پاکستان گزشتہ ڈیرھ دہائی سے حالتِ جنگ میں ہے۔اسی لئے لٹریری یعنی ادبی اقدامات کے تحت اب پاکستان کےسکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں میں زیرِتعلیم نوجوان نسل کو فکری راہنمائی کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے چنگل سے بچ سکیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ سانحہ صفورا میں ایلیٹ ایجوکیشن سسٹم سے فارغ التحصیل نوجوان ملوث پائے گئے۔ اسی بات کے پیش نظر برطانیہ نے بھی اپنی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی (کنٹیسٹ) کے تحت اپنے تمام تر تعلیمی اداروں میں ای میل سکرینگ سروس کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان بھی مستقبل قریب میں سانحہ صفورا جیسے واقعات کے تدارک کے لئے اس طرز پر اقدامات لے سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر معاشرے میں انتہا پسندی کے متبادل بیانیے کو فروغ دینے کے لئے نامور شعراء اورمعروف ادبی شخصیات کی خدمات لی جائیں تو وہ کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔
علاوہ ازیں، پاکستانی معاشرے سے تخریب کارانہ اور شرپسندانہ سوچ کا مکمل طور پر قلع قمع کرنے کے لئے پولیٹیکل یعنی سیاسی اقدامات بھی بلاشبہ، سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم کی ایک زیلی حکمت عملی کے طور پرمشمول کیے جاسکتے ہیں۔ اس میں کلیدی کردار پارلیمنٹ اور ساسی قیادت کا ہوتا ہے جو کہ نہ صرف متعلقہ قانون سازی کے ذریعے انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن بناتی ہے بلکہ انتہا پسندی اوراس لعنت سے جڑے تمام ترسماجی رجحانات اور فرقہ ورانہ میلانات کو یکسر طور پر مسترد کر کے ایک ’’متاثرکُن قومی بیانیے‘‘ کی تشکیل بھی کرتی ہے۔ جس کی اقوام عالم کی تاریخ میں اہم ترین مثال مملکتِ مصر ہے۔ جس نے القاعدہ کے خلاف سافٹ کاؤنٹر ٹیررازم کے اقدامات کے ذریعے ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔
لہذا،پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ موبائل فونزاورسوشل میڈیا کو، فرقہ ورانہ،لسانی، صوبائی اور دیگر بنیادوں پر منقسم کرنے والی زہرآلودہ سوچ کی ترویج کے لئے استعمال ہونے سے روکنے کے لئے نہ صرف قانون بنائے بلکہ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے بھی، کڑی سے کڑی سزائیں مختص کرے تاکہ ایسے مجرمان بقیہ معاشرے کے لئے عبرت کا سامان بنیں۔
کیمونل یعنی معاشرتی اقدامات میں معاشرہ خود اپنے احساسِ ذمہ داری کے تحت سرگرم ہوتا ہے اور اپنے ارد گرد مشتبہ افراد کی موجودگی سے قانون نافذ کرنے والےملکی اداروں کو آگاہ کرتاہے۔ اور کسی بھی معاشرے میں شعور کی بیداری کے لئے (کاؤنٹر نیراٹیو کمپین) یعنی متبادل نظریہ فراہم کرنےکی مہم چلائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں آج کل آپریشن ردالفساد کے زیرِسایہ ایک ’’قومی رائے عامہ‘‘ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مزید براں، نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کے ضمن میں پولیس کی جانب سے کرایہ داروں کا ریکارڈ جمع کرنی کی حالیہ کوشش خوش آیند ہے مگر یہ کوشش بیکار جانے کاخدشہ رہے گا اگر اس ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نہیں کیا جاتا۔ بہرحال اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں کہ حالیہ دھماکوں میں جانی ضیاع کے پیش نظر پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی مہم میں کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے جو بذاتِ خود ایک قابل تحسین امر ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے، کہ ہم انسدادِ دہشت گردی کے طے شدہ بین الاقوامی معیار سے بہت پیچھے ہیں جس کی بڑی وجہ ہماری حکومت کی عدم دلچسپی ہے۔
یاد رہے جہاں دہشت گردوں کی مزید(ریکروٹنگ)یعنی بھرتیوں کو روکنے کے لئے ان کے فنانسرزکی کڑیوں کو توڑاجانا ضروری امرہے، وہیں انتہا پسندی سے بھی فی الفور نمٹنا وقت کی اہم پُکار ہے ۔ اور جس کے لئے پاکستان کو بیک وقت ایک کثیرالجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ جس میں (ڈومیسٹک اورانٹرنیشنل کاؤنٹر ٹیررازم) یعنی داخلی و بین الاقوامی انسدادِ دہشت گردی کیلئے کی جانے والی کاوشوں کے علاوہ ،معاشرے سےشرپسندانہ سوچ کے تدارک کے لئے بھی کوئی موثرلائحہ عمل مختص ہو۔