پاکستان گزشتہ دو د ہائیوں سے اِسپاٹ فکسنگ کا شکار ہے۔ 20سال قبل سلیم ملک اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں سزا بھگت چکے ہیں جس کے بعد ان کا کیرئیر وقت سے پہلے ختم ہوا۔حالانکہ اب ان کی پابندی ختم ہوچکی ہے لیکن وہ وقت گزر گیا جب وہ قوم کے لیے کچھ کرسکتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے عطا الرحمن جوکہ سن 2000 میں بکیز سے سودا کرنے کے جرم میں تاحیات پابندی کا سامنا کرچکے ہیں۔ پابندی2006 میں ختم تو کردی گئی مگر اس کے بعد قومی ٹیم میں واپس نہیں لیا گیا۔ عطا الرحمن اورسلیم ملک کے علاوہ پاکستان کے دیگر بڑے کھلاڑیوں پر الزامات ضرور لگتے رہے ہیں مگر کسی نے ان پر لگنے والے الزامات کو ثابت نہیں کیا۔
پاکستان کے علاوہ دُنیا بھر کے مختلف کھلاڑی بھی کافی مرتبہ میچ فِکسنگ یا پھر اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے منظرِ عام پر آتے رہے ہیں مگر جس طرح حالیہ 8 سالوں سے جو پاکستان ٹیم کے کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ کی زد میں ہیں اُس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو سخت سزا دینے کے بجائے ان کی واپسی کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ اور دیگر نام نہاد ماہرین کرکٹ کی طرف سے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے لیے سفارشات کا آناہے۔
دُنیا کے مختلف ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑیوں کے حوالے اس طرح کی خبریں آتی رہی ہیں کہ فلاں کھلاڑی اُس میچ میں فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تھا مگر پاکستانی کھلاڑی اور دیگر ممالک کے کھلاڑیوں میں اتنا فرق ہے کہ دوسرے ممالک کے بورڈ کی جانب سے میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی ہے اگر کارروائی نہ بھی کی جائے تو خاموشی سے اسے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے خواہ وہ کتنی ہی فِٹنس ٹیسٹ پاس یا ظاہر کردے یا کتنی ہی اچھی پرفارمنس دے اُسے قومی ٹیم میں واپس نہیں لیا جاتا, جیسے ساؤتھ آفریقہ کے ہینسی کروُنے , بھارت کے اجے شرما جوکہ سن 2000 میں بکیز سے رابطہ یا تعلق ہونے کے حوالے سے قصوروار ٹہرائے گئے تھے جس پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جو14 سال بعد 2014 میں آئی سی سی کی جانب سے پابندی اُٹھالی گئی۔ اسی طرح اجے جدیجہ کو بکیز سے رابطہ کی بنا پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کی گئی تھی 2003 میں پابندی تو اُٹھالی گئی لیکن کیرئیر نہیں بچا سکے۔
بھارت کے سابق کپتان اظہر الدین پر بھی الزامات لگے مگر وہ الزام درست ہوں یا غلط اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے شبہ میں ہی دنیا کے بہت سے کھلاڑیوں کا کیرئیر وقت سے پہلے ختم کردیا گیا, ہمارے یہاں تو جرم کا اقرار کرنے والوں کو ہی پھر سر پر بٹھا کر ہیرو بنایا گیا اور کرکٹ جیسے جیِنٹل مین گیم کی توہین کی گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ 2010 میں جب سلمان بٹ , محمد آصف , اور محمد عامر کے حوالے سے اسپاٹ فکسنگ کے الزامات نے سراٹھایا اور پھر وہ الزامات درست ثابت ہوئے تو اس پر آئی سی سی کی جانب سے جو انھیں سزا دی گئی وہ تو اپنی جگہ مگر ملک کی ساکھ خراب کرنے اور شائقینِ کرکٹ کے ساتھ جو دُھوکہ کیا گیا اس پر ہماری طرف سے کیا کارروائی کی گئی ؟۔
پاکستان 2010 کے بعد ایک بار پھر اسپاٹ فکسنگ جیسے الزامات کی زد میں ہے۔ پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ایڈیشن فروری 2017 میں دبئی شارجہ میں کھیلا گیا جس کی بہترین افتتاحی تقریب ہوئی مگر یہ شاندار لیگ کا رنگ اس دن پھیکا پڑ گیا جب پی ایس ایل ٹو کے تیسرے /چوتھے میچ میں بعض کھلاڑیوں کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے حوالے سے خبریں آئیں۔ پی ایس ایل ٹو میں اسلام آباد یوناٹیڈکے کھلاڑی خالد لطیف اور شرجیل خان کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ دونوں کھلاڑیوں کو فوری طور پر واپس بھیج دیا گیا، پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کے اختتام کے چند روز بعد مزید کھلاڑیوں کے حوالے سے معلوم ہوا کہ اور بھی کھلاڑیوں سے بُکیز نے رابطہ کیا تھا۔
پی ایس ایل کے بعد جن کھلاڑیوں کے نام منظر عام پر آئے ہیں ان میں کراچی کنگز کے شاہ زیب حسن , اور اسلام آبا یونائٹیڈ کے محمد عرفان ہیں ,کہا جارہا ہے کہ بکیز سے اور بھی کھلاڑی رابطے میں تھے , پی ایس ایل ٹو اسپاٹ فکسنگ کرنے , بکیز سے رابطہ ہونے کا نہ بتانے اور اسپاٹ فکسنگ کے لیے اکسانے پر اب تک پاکستان کے 5 کرکٹرز کو معطل کردیا گیا ہے اور مزید نام ابھی بھی آنا باقی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اور دیگر انتظامیہ کی جانب سے کہا جارہا تھا کہ اسپاٹ فکسنگ جیسی برائی سے بچنے کے لیے ان کی طرف سے تمام تیاریاں مکمل ہیں اور اینٹی کرپشن یونٹ نگاہ رکھے ہوئے ہے , مگر سوال یہ ہے کہ اگر اینٹی کرپشن یونٹ فعال تھا اور نگاہ رکھا ہوا تھا تو اس کے باوجود کھلاڑی بکیز سے رابطے میں کیسے آئے ؟ حالانکہ 2010 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں قومی و بین الااقومی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی اس کے باوجود 2017 میں پھر کھلاڑیوں کا اسی جرم کی طرف مائل ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔
دورہ انگلینڈ 2010 میں اسپاٹ فکسنگ کرنے والے کھلاڑیوں کو قومی سطح پر عبرت کا نشان بنایا جاتا تو اس طرح سے یہ برائی پھر جنم نہیں لیتی , مگر ہمارے یہاں ایک غلطی کو بار بار دہرانے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی وہی کہا سنا جارہا ہے جو 2010 میں دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ معاملے کے اٹھنے پر کہا سنا جارہا تھا۔ سابق کھلاڑیوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو سخت سزا دی جائے تاحیات پابندی لگادی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایس ایل ٹو میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑی ہی نہیں بلکہ سلمان بٹ، عامر اورمحمد آصف سمیت تمام کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی لگادینی چاہیے جو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث رہا ہو, تاکہ عبرت ناک سزا عملی طور پر نظر آئے,ورنہ یہ برائی چند ایک سال بعد پھر سر اٹھائی گی اور ہم اسی طرح سخت سزا کا مطالبہ کررہے ہوں گے ۔
پاکستان میں قابلیت اور اہلیت کی کمی نہیں ہے , خواہ کوئی بڑا کھلاڑی سزا سب کو برابر ملنی چاہیے کیونکہ اگر بورڈ انتظامیہ نے پہلے ایکشن لیا ہوتا یا سختی سے نمٹا ہوتا تو آج دوبارہ کسی کھلاڑی کی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی ہمت نہ ہوتی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور دیگر حکام کوکسی کے ساتھ زیادتی کیے بغیر تمام مصلحتوں کو پس پشت رکھتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔