The news is by your side.

یومِ پاکستان کی ڈھلتی شام اور ہم

پاکستان کی اَساس تقریباً دس لاکھ شہداء کے لہو  سے رکھی گئی ہے تبھی شاید یہ اُنہتر سالوں بعد بھی ہمارے حکمرانوں کی بے شماردغابازیوں کے باوجود  قائم ودائم ہے۔  یا پھر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم و عنایت ہے جس کی بدولت پاکستان مخالف قوتیں، ابھی تک اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود اپنے ناپاک خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر نے میں ناکام رہیں ہیں۔  اِس ارضِ پاک کی بقاء اور تحفظ کی خاطر جان دینے والے ہر ایک پاکستانی، بالخصوص پاک افواج اور آئی ایس آئی کے گمنام سپاہیوں کو بھی ہمیں اِس یوم پاکستان کے موقع پرخاص خراجِ تحسین پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ جن کی بے دریغ قربانیوں کے ثمرات ہم  آج  “بصورت امن” موصول کر رہے ہیں۔ اور اسلام آباد میں شکر پڑیاں کے مقام پر کامیاب پریڈ کا انعقاد کر کے یومِ پاکستان کی اپنی خوشیوں کو دوبالا کر نے میں مصروفِ عمل دیکھائی دیتے ہیں۔

بلا شبہ تقریباً گزشتہ ڈیرھ دہائی سے پُورے پاکستان کی فضا سوگوار رہی ہے۔ کیونکہ اِس کے ہرقصبے، ہر شہر سے جنازے اٹھے ہیں۔ حتیٰ کہ معصوم بچوں کو بھی اِن وحشیانہ صفت درندوں یعنی “ظالمان” نے نہیں بخشا۔ مگر آفرین ہے اس قوم پر جو کہ اِتنی صعوبتیں جھیلنے کے باوجود بھی ہر مشکل گھڑی میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی رہی۔ اور اِن کے صبر و ہمت کے ہی بدولت اَب پھر سے رونقیں اور خوشیاں واپس ہمارے دیس میں لوٹنے لگیں ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے خواب کو محض سات سال کے مختصر عرصے میں ہماری دلیر اور بہادر قوم نے ایک “ناقابلِ یقین حقیقت” میں بدل دیا۔ ورنہ دُنیا کی پہلی نظریاتی ریاست کا قیام اور ہمارے قائد واقبال کی خوابوں کی تعبیر  اِتنی آسانی سے کبھی ممکن نہ ہوپاتی۔ یومِ پاکستان جہاں تجدید عہدِ وفا کا دن ہے وہیں یہ ایک نیا خواب دیکھنے کا دن بھی ہے۔ پُر امن اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کا خواب۔۔۔

آئیے اِس خواب کی تعبیر کو ممکن بنانے کے لئے ہم سب اپنے اپنے گھروں سے شروعات کریں۔ اور اُسی جذبے اور ولولے سے کام کریں جو کہ 23 مارچ سنہ 1940 میں قراردادِپاکستان منظور ہونے کے بعد قیام پاکستان کےخواب کو ممکن بنانے کے لئے بروئے کار لایا گیا۔

اَب اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی افواج نے قبائلی علاقہ جات سے شر پسند آماجگاہوں کا مکمل خاتمہ کر دیا ہےاور اَب جو اِکا دُکا شر پسند بچے ہیں وہ اپنے ناپاک عزائم لئے ہمارےشہروں، قصبوں دیہاتوں میں آبسے ہیں۔ جہاں سے وہ اُٹھ کر ہمارے سکولوں، کالجوں ،مزاروں اور پارکوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اِس لئے اَب یہ ضروری اَمر  تصور کیا جا رہاہے کہ اِس ضمن میں ہم بحیثیت قوم بھی، اپنے اپنے انفرادی فرائض کی اہمیت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے، بطور سول سوسائٹی اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

بلاشبہ “آپریشن ردالفساد”  دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی ہماری جنگ کا “آخری مرحلہ” ہے اور جسے ہمیں اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کامیابی سے عبور کرنا ہے۔ اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ آپریشن ردالفساد کا بوجھ صرف فوج کے کندھوں پر نہیں ڈالا جا سکتابلکہ اِس میں عوام کا بھی برابر کا حصہ ہے۔

یقیناً یہ جنرل باجوہ کے لئے ہر گز ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ہر گھر، ہر گلی، محلے، ہر سکول وکالج کے باہر اپنے سپاہیوں کو تعینات کریں۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہونگے۔ اپنے گلی محلوں کی خود حفاظت کرنی ہوگی۔ تاکہ ملک دشمن عناصر یا خوفناک ایجنڈا رکھنے والے لوگ ہمارے ہمسائے میں آکر نہ بس سکیں۔بصورت دیگر ہمیں ہماری غفلتوں کی وجہ سے خوفناک نتائج بُھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اور اِیسی صورت میں ہمارے شہیدوں کا لہو رائیگاں جانے کا اندیشہ  بھی ہو گا۔اور یقیناً جسکےہم کبھی بھی بحیثیت پاکستانی متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمارے نڈر اور بہادر فوجی جوانوں نے تو اپنی جانیں نثار کر کے اپنا عہد نبھا دیا، یاد رہے اَب باری ہماری ہے۔۔۔

اورآخر میں اپنے پیارے وطن “پاکستان کے نام”  میرا ایک مودبانہ سا خراجِ عقیدت، اپنے تحریر کردہ کچھ دعائیہ اشعار کے صورت میں۔۔۔۔

اے خدا! خواہش ہے اتنی سی اَب
کہ اندھیرا، اَب چھٹ جائے
ہر شرِ اَب مٹ جائے
امن کا گہوارہ بنے یہ دیس
خوشیوں کا فوارہ بنے یہ دیس
کہ طلوعِ سَحر ہو جہاں
امن کی دیپ جلیں وہاں
وطن سے عشق کو جہاں زوال نہ ہو
اخوت ایسی ہو جس کی کہیں مثال نہ ہو
ہر طرف جہاں ضو فشاں، ضو فگن ہو
روشن ستاروں کی مانند ہمارا چمن ہو
رائیگاں نہ جائے جہاں لہو شہیدوں کا
ہر کوئی جہاں نگارِ چمن ہو، لعل یمن ہو

شاید آپ یہ بھی پسند کریں