The news is by your side.

دہشت گردی کا بیانیہ‘ میدان عمل کے شاہ سواروں سے اجتناب کیوں ؟

چلنے والوں کے جوتے ٹوٹا ہی کرتے ہیں ۔ حرکت میں برکت ہے لیکن یہ حرکت اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آتی ہے۔ کیپٹل ازم شور مچاتی ہے کہ انسان کو اپنے دائرے سے باہر نکلنے کے لئے اضافی محنت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سوشل سرکل سے باہر بڑے سوشل سرکل میں قدم رکھتے ہی اس کے مسائل اور ٹیکس کی ریشو بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس کائنات میں بسنے والی ہر قوم کو مسائل کا سامنا کرنا ہی ہے ، زندہ قومیں البتہ ان مسائل سے نکلنے کا راستہ جلد دریافت کر لیتی ہیں ۔ چلنے والے لمحہ بھر کو رک کر اپنا ٹوٹا جوتا مرمت کر لیتے ہیں ، چھالے ان کے پاؤں میں پڑتے ہیں جو منزل کی جانب اندھا دھند بھاگنے کے دوران پاؤں کے ٹوٹے جوتے کی پروا نہیں کرتے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر مسئلہ کو پاکستان کی ناکامی قرار دینے لگتے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ پاکستان مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ 1947 میں جنم لینے والی یہ ریاست عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن جاتی ہے لیکن دائرے میں سفر کرنے والے دانشور ایک حادثہ کی بنیاد پر ہی چلانے لگتے ہیں کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کئی سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔ یہ جنگ ہماری گلی کوچوں میں لڑی گئی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس جنگ کے خاتمے تک لڑنے کا عہد کئے ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں دو ایسی ہی کانفرنسز میں شرکت کا موقع ملا جو نظریاتی حوالے سے دو انتہائوں نے برپا کی تھیں لیکن دونوں جانب ہی پاکستان کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا۔ یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور یو ایم ٹی پاکستان کے تعاون سے ایک تین روزہ ریسرچ کانفرنس کا انعقا د پی سی میں ہوا جس میں بیرون ممالک سے آئے سکالرز نے بھی مقالے پیش کئے ۔ اس کانفرنس کے شرکا محدود تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انتطامیہ نے دانستہ طور پر میڈیا کو بھی اس سے دور ہی رکھا تھا۔ ان کے ایک ذمہ دار کا کہنا تھا کہ ہم نے تحقیقاتی دنیا کی’’ کریم ‘‘کو اکٹھا کیا ہے اس لئے اس میں روایتی لوگوں کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ یہیں ہماری ملاقات احمد سہیل نصر اللہ نے جان ایسپوسیٹو سے کرائی جن کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف لکھی طاہر القادری کی کتاب کا مقدمہ لکھا تھا ۔ کانفرنس میں مندوبین نے اپنے اپنے تحقیقاتی مقالے پیش کئے اور دہشت گردی کے حوالے سے اہم گفتگو کی ۔ دوسری جانب ایمبیسیڈرڈ میں ورلڈ کالمسٹ کلب کی جانب سے ’’ شہہ رگ پاکستان کانفرنس ‘‘برپا کی گئی جس میں حافظ شفیق الرحمن ، عطا الرحمن ، رضوان رضی ، ڈاکٹر اختر شمار ، فرید پراچہ ، زعیم قادری اور عبد الرحمن مکی سمیت سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ لگ بھگ 100 سے زائد کالم نگاروں نے شرکت کی ۔ یہاں عبد الرحمن مکی نے شملہ معاہدے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس معاہدے کی رو سے ہم نے اقوام متحدہ کو خود ہی کشمیر کے تنازعہ سے باہر نکال دیا ہے۔ بلاشبہ یہ کالم نگاروں کا بڑا اکٹھ تھا جس میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی نمائندگی ظاہر کی۔

بطور صحافی ایسی کئی کانفرنسز میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے ۔ ان دو کانفرنسز کا البتہ خاص طور پر ذکر کرنا اس لئے بھی مقصود ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کے دو الگ الگ مکتبہ فکر کے اکٹھ تھے ۔ دونوں جانب البتہ دہشت گردی کی مذمت اور پاکستان کی فلاح کی بات ہوتی ہے ۔ ان شاندار کانفرنسز میں مجھے ایک کمی محسوس ہوئی ۔ یہ کمی صرف ان تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے ہماری مجموعی کمزوری قرار دیا جا سکتا ہے یا پھر کہا جا سکتا ہے کہ اس جانب تاحال سوچا ہی نہیں گیا۔ پہلی بات تو یہ کہ اب ہمیں ایسی کانفرنسز ، مقالے اور مباحثوں کو عام شہری تک پہنچانا ہو گا ۔ ہمارے کالموں سے لے کر علاقہ کے کونسلر کی کارنر میٹنگز تک ہر سطح پر کرادا ادا کرنا ہو گا ۔ یہ آواز اور ریسرچ پیپرز کئی سال سے بڑے ہوٹلوں کے سیمیناز تک محدود ہیں ، دہشت گردی کا نشانہ البتہ بازار میں آنے والے معصوم بچے اور خواتین بنتی ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ ان کانفرنسز میں ان لوگوں کی نمائندگی نظر نہیں آتی جنہوں نے ان مقالوں پر عملی کام کرنا ہوتا ہے ۔ ہمیں یہاں سیاسی نمائندگی تو ملتی ہے لیکن فوج اور پولیس کی نمائندگی نظر نہیں آتی ۔ اب یہ دوری بھی ختم کرنا ہو گی ۔

اب ہمیں ایک میز پر ریاستی اداروں کے ساتھ دانشوروں کو بٹھانا ہو گا تاکہ براہ راست مکالمہ ہو اور مسائل کا ٹھوس حل تلاش کیا جائے ۔ محض لاہور ہی کی بات کریں تو یہاں عوامی تحفظ کی ذمہ دار پولیس ہے لیکن ہمیں اکثر کانفرنسز میں پولیس کی نمائندگی نظر نہیں آتی ۔ یہاں کئی ایسے پولیس افسران موجود ہیں جن کو تھنک ٹینک میں شامل کر کے مسائل کا عملی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہ آفیسرز میدان عمل میں ہیں اورفوری طور پر بتا سکتے ہیں کہ کس طریقہ کار میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں ۔ ہمارے یہاں سینئر پولیس افسران میں سی سی پی او لاہور امین وینس ، ڈی آئی جی حیدر اشرف ، ایس ایس پی ایڈمن ایاز سلیم خاص طور پر شہریوں کی مدد سے مشکوک افراد کی نگرانی کے منصوبوں پرکام کرتے رہے ہیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ پنجاب کی سطح پر امجد سلیمی ، عارف نواز ، فیصل شاہکارا، عامر ذوالفقاراورطارق مسعود یسین سمیت ایسے کئی افسران موجود ہیں جن کو نہ صرف عوامی پذیرائی حاصل ہے بلکہ انہیں خطرناک مجرموں کے خلاف کام کرنے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے ۔ اسی طرح ریٹائرڈ پولیس افسران کی بڑی تعداد بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تاحال اس حوالے سے سوچا ہی نہیں گیا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ دہشت گردی ہم سب کا مسئلہ ہے اور ہم سب نے مل کر ہی یہ مسئلہ ختم کرنا ہے ۔اب تک اس مسئلہ کے حل کے لئے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ ہمارے یہاں اس موضوع پر ریسرچ پیپرز ہی نہیں بلکہ جامعات کی لائبریریز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالے تک موجود ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اس ساری تحقیقی اور کانفرنسز کا عملی فائدہ اٹھایا جائے ۔ شہری ، اسکالرز اور پولیس سمیت دیگر ریاستی اداروں کو اس مسئلہ کے حل کے لئے مل کر کام کرنا ہو گا ۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے پراعتماد کریں ۔ ہمیں بحثیت قوم ایک ایسا نیٹ ورک تشکیل دینا ہو گا جس کے تحت دہشت گردی کے حوالے سے ہر تجویز ، مقالہ اور تحقیق براہ راست متعلقہ اداروں اور افسران تک پہنچ سکے اور ہر ایسی کانفرنس میں وہ افراد بھی بلائے جائیں جنہوں نے عملی میدان میں ہمارے دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے لاشے اٹھائے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں