’’کراچی کے حقوق کے لیے تمام سیاسی جماعتیں سڑکوں پر آگئی ہیں۔‘‘
’’ یہ تو بہت اچھی ہے۔ لیکن حقوق دینے کس نے ہیں؟‘‘
’’یہ بات تو کراچی کے عوام کو سمجھ میں ہی نہیں آرہی۔ اسی لیے کراچی کے عوام ہر بار اسی عطار کے لونڈے کو ووٹ دیتے ہیں جو نہ دوا دیتا ہے اور نہ ہی دعا۔‘‘
’’ساری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر اس طرح احتجاج کررہی ہیں جیسے امریکہ نے ان کے حقوق غضب کرلیے ہوں۔‘‘
’’سندھ حکومت نے بھی شاید اسی لیے سڑکوں کو مزید چوڑا کردیا ہے تاکہ لوگوں کو حقوق دلانے میں کسی کو تکلیف نہ ہو۔‘‘
’’ لیکن اب اتنا بھی چوڑا نہیں ہونا چاہیے کہ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے میں ہی تیر چلائے جائیں۔‘‘
’’ ہر کوئی حقوق کے لیے مزار قائد کا رخ کررہا ہے جیسے قائد اعظم نے کراچی والوں کے حقوق غضب کیے ہوں۔‘‘
’’الیکشن قریب ہیں اسی لیے ہر سیاسی جماعت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی ہے۔‘‘
’’لیکن سندھ حکومت کو تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ان کا بھٹو جو زندہ ہے۔‘‘
’’یہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے کہ جب تک بھٹو زندہ ہے پیپلز پارٹی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’لیکن اب جس نے بھی کراچی والوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اب وہ بچ نہیں سکے گا۔ ‘‘
’’یہ کس کا فرمان ہے؟‘‘
’’اسی کا جس نے ڈاکہ ڈالا ہے۔‘‘
’’چور اگر شور مچائے گا توکیا وہ پہچانا نہیں جائے گا ۔ اس کی داڑھی میں تنکا تو صاف نظر آرہا ہے۔‘‘
’’یہی تو مسئلہ ہے چور کی داڑھی ہی نہیں ہے اورمونچھیں بھی اسی خوف سے صاف کرلی ہیں کہ کہیں تنکا نہ پھنس جائے۔‘‘
’’ آج کل کے چور تو کرپشن پر لیکچر بھی دیتے ہیں اور تو اور مسجد میں امامت بھی کرواتے ہیں۔‘‘
’’کیا کریں جب داڑھی والے دہشت گرد کہلائیں گے تو پھر کلین شیو والوں کو کلین چٹ تودینا پڑے گی۔‘‘
’’کلین چٹ کے لیے ڈرائی کلینر کے پاس جانا پڑتا ہے ۔جہاں بڑے بڑے داغوں کا حل بہت جلدی نکال لیا جاتا ہے۔‘‘
’’یعنی یہ کلین پارٹیاں پھر سے عوام میں داغ لگانے جائیں گی ۔جہاں چلو بھر پانی بھی نہیں ہے۔‘‘
’’ چلو بھر پانی ہوتا تو یہ پارٹیاں کب کی ڈوب کر مرچکی ہوتیں۔‘‘
’’ الیکشن میں کس منھ سے جاؤ گے ، شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘
’’ایک وقت تھا جب اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا جاتا تھا ’کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے‘ ‘
’’اب وہ پانچ سال پورے کرکے بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکے۔‘‘
’’لگتا ہے ان سے لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہونی لیکن حکومت کی مدت ضرور ختم ہوجانی ہے۔‘‘
’’وہ تو شکر کرو عدالت نے پانامہ کا پاجامہ نہیں اتارا، ورنہ انہوں نے کہنا تھا ہمیں پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے ۔‘‘
’’ ان کے پانچ سال پورے ہوجائیں گے پھر دوسرا آجائے گا وہ اپنے پانچ سال پورا کرے گا اور یوں ان کی باریاں لگی رہیں گی۔ ‘‘
’’عوام کی باری کب آئے گی؟اور ان کے حقوق کی باری کب آئے گی؟‘‘
’’جب تک وہ خود اپنے حق کے لیے باہر نہیں نکلیں گے ،کوئی ان کا حق انہیں نہیں دلا سکتا۔‘‘
’’چلو تو پھر ہم بھی چلتے ہیں اپنے حق کے لیے…‘‘
میر شاہد حسین نے اپنے قلمی سفر کا آغاز بچوں کے ایک معروف رسالے سے 1995ءمیں کیا بعد ازاں آپ اسی رسالے کی ادارت سے منسلک ہوئے اور پھر اس کے مدیر بھی رہے، آپ کو بچوں کے ادب میں کئی ایوارڈزسے بھی نوازا گیا جن میں نیشنل بک فا ؤنڈیشن بھی شامل ہے
شاید آپ یہ بھی پسند کریں
نوٹ: اے آروائی نیوزکی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں ناظرین تک پہنچے تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 700 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعار ف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: [email protected] آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔