تحریر: سردار ریاض الحق
احمد پور شرقیہ میں پیش آنے والے المناک حادثہ ،اس سے پہلے پارہ چنار اور کوئٹہ میں دہشت گردی یعنی صرف دو دنوں کے اندر300 سے بھی زائد قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ قوم جو کئی سالوں بعد کرکٹ کی جیت کی خوشی منا رہی تھی ایک دفعہ پھر سوگوار ہو گئی۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے ہم نے اس کو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا لیکن جہاں تک احمد پور شرقیہ جیسے المناک سانحات کا تعلق ہے‘ تو اس کے پیچھے کے محرکات سب سے اہم یہ ہے کہ بطور ایک کرپٹ سماج کے رکن ہونے کے ہر فرد اسی لالچ میں نظر آتا ہے کہ جیسے بھی جو ہاتھ لگتا ہے وہ لوٹ کر بھاگ جائیں لیکن اگراس حادثہ کی منظر کشی پچاس سے لیکر ستر کی دہائی کے درمیانی عرصہ سے کریں تو شاید منظر کچھ اور ہوتا۔
اس گاؤں کے لوگ گھروں سے نکلتے ضرور لیکن چند روپوں کا تیل لوٹنے نہیں بلکہ انسانی جانوں کو بچانے۔ سب سے پہلےگاوں والے کسی کوبھیجتے کہ پولیس کو اطلاع کرکے آؤ، کوئی بڑا بوڑھا نوجوانوں کو کہتا کہ تم راستے کے دونوں جانب کھڑے ہو جاؤ کہ کوئی گاڑی یا انسان غلطی سے اس طرف نہ آنے پائے ۔ بچوں کی مائیں انہیں پکڑ پکڑ کر محفوظ مقام پر لے جاتیں پالتو مویشیوں اور جانوروں کو کھول دیا جاتا کہ اگر آگ بھڑک اٹھے اور گاوں کی طرف آجائے تو کم از کم یہ تو بھاگ کر اپنی جان بچا سکیں۔
لیکن اسی کی دہائی میں یہ کیا ہوا کہ یہ معاشرہ لالچ تما اور حوس کی گہرائیوں میں گرتا چلا گیا اور اب اس حد تک گرگیا کہ اب ہرکوئی اپنی جان کی پروا کئے بغیر لوٹ مار کرنے نکل پڑتا ہے۔
آپ نے سوشل میڈیا پر وہ ویڈیو تو دیکھی ہوگی جس میں ایک نوجوان کہہ رہا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھولو ۔پھر ایک آواز آتی ہے کہ اپنی گاڑی تو بھر گئی اب نکل لو ۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کس قدر ہم لوگ لالچ میں پڑ چکے ہیں کہ یعنی ایک گاڑی رکھنے والا شخص کوئی غربت کا مارا ہوا تو ہو نہیں سکتا پھر اس کے الفاظ سے ایسی خوشی جھلک رہی ہے جیسے لوٹنے والے کے منہ سے لوٹ کے مال پرنکلتی ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ وہ نوجوان بچ گیا یا اس حادثہ کا شکار ہوگیا اور نہ ہی کسی کی دل آزاری میرا مقصد ہے بلکہ میرا مقصد معاشرے میں پھیلی اس برائی کی نشاندہی کرنا ہے جسے لالچ ہوس یا جو بھی کہہ لیں اورجو پچھلی تین دہائیوں سے ہمارے معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب کررہی ہے اقتدار کے ایوانوں سے لیکر عام آدمی تک اس برائی کی دلدلل میں دھنسا ہوا ہے اور ابھی تک اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔
آئیں اب ایک اور حادثے کا ذکر کرتے جائیں جو کہ بالکل اس سے ملتا جلتا ہے یہ حادثہ۱۹۹۹ میں روڈوسلطان نامی قصبہ جو ضلع جھنگ میں واقع ہے کے قریب پیش آیا تھا اس واقعہ میں بھی ایک ٹینکر جو کہ ہائی آکٹین آئیل سے بھرا ہوا تھا سڑک پر الٹ گیا اور اس میں سے تیزی سے آئل بہنے لگا ۔ یاد رہے کہ ہائی آکٹین آئل عام پٹرول سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے حسب معمول اپنی زندگیوں کی پروا کئے بغیر بچے جوان ہر کوئی گھر سے جو بھی کین برتن پیپا ملا لے کے جائے وقوع پر پہنچ گیا موٹر سائیکل والے گاڑیوں والے بھی رک کر اپنی گاڑیوں کی ٹینکیاں بھرنے لگے ۔
اس ٹینکر کا ڈرائیور جو کہ اس خطرے سے بخوبی آگاہ تھا کہ یہ انتہائی آتش گیر پٹرول ہے وہ لوگوں کو روکتا رہا کہ وہ وہاں سے ہٹ جائیں قریب ہی ایک مسجد تھی وہ ڈرائیور فوراً وہاں گیا اور سپیکر پر خود اعلان کرتا رہا کہ یہ انتہائی خطرناک ہے اور دس بیس فٹ دور سے بھی آگ پکڑ لیتا ہے لیکن کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہ تھا ۔اتنے میں ایک پرانے ماڈل کی گاڑی ویاں آکر رکی اس میں سوار لوگوں نے بھی تیل گاڑی میں ڈالنا شروع کردیا ٹینکی فل کرنے کے بعد جیسے ہی اس نے گاڑی سٹارٹ کی ایک زور دار دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اٹھی اس حادثے میں ایک سو چوبیس جانیں ضائع ہوئیں۔
اخبارات میں خبریں آئیں‘ اداریے چھپے ‘ ٹی وی ریڈیو پر خبریں چلیں لیکن ہماری عوام کو شعور نہ آیا اور شاید آبھی نہیں سکتا۔میں دعوے سے کہتا ہوں اگر خدا نہ کرے کل ہی کسی اور جگہ ایسا واقعہ ہو جائے تو آپ کو ایسے ہی لوگ پٹرول بھرتے ہوئے نظر آئیں گے جیسے کہ احمد پور شرقیہ اور روڈو سلطان کے واقعات میں نظر آئے ۔جس کی وجہ صرف ایک ہے معاشرہ میں پھیلا لالچ کا مرض جس نے 1999 سے لے کر آج تک اس قوم کوشعور سے محروم کررکھا ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں