ابھی پچھلے ہی ہفتے پاکستان نے شمالی وزیرستان(یونس خان اسٹیڈیم میران شاہ) میں کرکٹ کا کامیاب میچ منعقد کروایا اور اقوام عالم کو پاکستان کی جانب سے امن کا پیغام دے کر انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے اپنی کاوشوں اور قربانیوں کو عالمی سطح پر باور کرانے کے لئے بیانیہ تشکیل دینے کی ایک منظم کوشش کی ہی تھی کہ کم و بیش اسی اثناء میں سوئٹزرلینڈ میں آزاد بلوچستان کے بینرز اور بعد ازاں اسلام آباد کی مصروف ترین شاہراہ ایکسپریس ہائی وے پرعالمی دہشت گرد تنظیم’ داعش’ کے پیغام (خلافت آرہی ہے) کے ہمراہ جھنڈوں کےلگنے کا معاملہ در پیش آیا۔ جو قطعاً محض اتفاق نہیں۔بلکہ مبینہ طور پر اس کے پس پردہ بھارتی ہاتھ ملوث ہےچونکہ ان واقعات سے صرف اور صرف پاکستان سے متعلق بھارتی بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ جس کا ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ سالانہ اجلاس میں پاکستان کے لئے استعمال ہونے والا بھارتی لب و لہجہ ہے جو پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست ثابت کرنے کے لئے لگائے جانے والے بے بنیادالزامات سے لبریز تھا۔
اس وقت تشویش طلب بات یہ ہے کہ تقریباً تین سال قبل نومبرسنہ2014ء میں بھی اسلام آباد کے مضافات میں داعش کے ایسے ہی جھنڈے لگے نظر آئے تھے اور اس سے اگلے ماہ سانحہ پشاور اے پی ایس رونما ہو گیا تھا۔ کیا اس بار بھی یہ جھنڈے کسی ایسے ہی ہولناک واقعے کا پیغام دینے کے لئے لگوائے گئے ہیں؟ یا پھر داعش واقعی ایک خطرہ بن کر پاکستان کی دہلیز پرمنڈلا رہی ہے؟کیونکہ اس سے قبل ماضی قریب میں بھی کراچی کے مختلف علاقوں مثلاً اورنگی ٹاؤن، بلدیہ، لانڈھی، سہراب گوٹھ، منگھوپیر اور گلشنِ معمار میں بھی نامعلوم افراد کی جانب سے داعش کے حق میں وال چاکنگ کی جا چکی ہے۔
اسی لئے ابھی پاکستان کے دارالحکومت میں داعش کے روایتی جھنڈوں کا ایک پیغام کے ساتھ آویزاں ہونا جہاں ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے وہاں یہ سیف سٹی کے نام نہادعوؤں پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جس نے قومی خزانے کو13ملین روپے کا ٹیکہ لگایا۔ جس کے تحت اسلام آباد بھر میں تقریباً 1900 کے قریب سرویلنس کیمرے نصب کئے گئے جس کا مقصد اہم شاہراؤں، عمارتوں کے علاوہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو محفوظ بنانا تھا۔ مگر پھر بھی اس منصوبے کے ماہرین کا خیال ہے کہ داعش کے جھنڈوں سے متعلق بظاہر ان کیمروں سے مدد ملنا ناممکن سی بات ہے کیونکہ ایکسپریس ہائی وے پر کیمرے ایسے زاویے پر نصب کئے گئے ہیں کہ ان کا ہدف صرف شاہراہ پر رواں دواں ٹریفک ہے۔
قابل غور امر یہ ہے کہ اگر اس واقعےکا تانا بانا اسلام آباد کے وسط میں موجود لال مسجد سے جڑتا ہوا پایا گیا تو کیا ریاست ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرپائےگی یا نہیں؟ یا پھر عوامی ردعمل کے خوف سے سہم کر چپ سادھے رکھے گی؟ یہ وہ سنجیدہ نوعیت کے عوامل ہیں جو پاکستان کی انسداد ِدہشت گردی کی کاوشوں کوبین الاقوامی سطح پرپذیرائی ملنےکی راہ میں حائل ہونے والی چند بڑی رکاوٹوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔
چونکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ القاعدہ سے وابستہ (نائن الیون امریکی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ) خالد شیخ محمد سمیت اسامہ بن لادن کی پناہ گاہیں پاکستان سے نکلیں اور اس کے بعد سے آج تک پاکستان کو’ڈومور ڈو مور‘کے مطالبے کی صورت میں مسلسل ایک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی لئے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں خدانخواستہ ’داعش‘ کا باب کھلنے سے کہیں ایک مرتبہ پھر بیرونی قوتوں کو پاکستان کی جانب انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ مل جائے۔
داعش سےاپنی روحانی وابستگی اوراس درندہ صفت تنظیم کے مشن سے مکمل اتفاق کا برملا اظہار بذات خود لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز متعدد بار میڈیا پر کر چکے ہیں جو کہ آن ریکارڈ ہے۔ اس لئے امورِ انسداد دہشت گردی کے ماہرین و ناقدین کی رائے میں، جامعہ حفظہ کی طالبات کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونی والی ویڈیو جس میں وہ داعش کو لال مسجد آپریشن کا بدلہ لینے کے لئے پکارتی دیکھی گئیں، کو مزید نظرانداز کرنا کسی ناقابل تلافی حماقت سے کم نہیں ہو گا۔
بلا شبہ پاک فوج تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کر کے سرحدیں محفوظ بنا رہی ہے لیکن پارلیمنٹ کی ناک کے نیچے وزارت ِداخلہ اور سول سیکورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں؟ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کہاں ہے؟ یہ وہ چند سوال ہیں جن کے جواب ہمیں اپنے حکمرانوں سے فی الفور طلب کرنے ہوں گے۔
داعش ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) سے بھی کہیں بڑا خطرہ ہے جسے پسپا کرنے کے لئے ایک مؤثر پیشگی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا پاکستان کو چاہیئے کہ اس سلسلے میں اپنے بیانیے کو موجودہ حالات و واقعات کی روشنی میں ہم آہنگ کرےاوراپنے نوجوانوں کوانتہا پسند نظریات کی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے، چونکہ اس تنظیم کا اصل ہدف ‘نوجوان نسل’ ہے۔
تاحال پاکستان میں داعش کا کوئی حقیقی وجود نہیں کیونکہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے کے ضمن میں مؤثر کو ششیں گزشتہ پندرہ سولہ برسوں سے کی جارہی ہیں تاہم اس نوعیت کے اِکا دُکا واقعات کے تناظر میں کسی بھی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کے لئے بہتر تیاری کی ضرورت ہے۔ تاکہ اس دہشت گرد تنظیم کے ہمدرد اور خیر خواہ اس کا نام استعمال کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں