The news is by your side.

عقل حیراں ہے کیا کیا جائے

گزشتہ کچھ سالوں سے سوشل میڈیا نے سند اور تصدیق کی روایت کو کچھ اس طرح سے تہہ تیغ کیا ہے کہ اب بس جو چاہے کہو ۔۔۔ کوئی آیت‘ کوئی حدیث ‘ کسی مبلغ کی تقریر‘ کسی جملے کی کہیں بھی نسبت ‘ کسی طرح کا اسکینڈل ‘ اور کسی بھی طرح کی ترغیب۔ حد تو یہ ہے کہ رنگ گورا کرنا‘ قد لمبا کرنا‘ بال لمبے کرنا‘ رنج مٹانا حسد ختم کرنا ‘ میل ملاپ بڑھانا‘ دلوں میں الفت اجاگر کرنا غرض جو کچھ بھی ہے سوشل میڈیا پر ہے ۔

ہاں جلدی سے اس خبر کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دو۔۔۔فلاں مولوی نے دوسرے عقیدے کے مولوی کو کیسا کرارا جواب دیا سے‘ لے کر اس میسیج کو دس لوگوں کو فوری فارورڈ کرو‘ اگلے بارہ گھنٹوں میں بڑی کامیابی ملے گی ، یا ان ناموں کو جس نے آگے نہیں بھیجا‘ اس کی قسمت میں ذلت اور رسوائی ہمیشہ کے لیے لکھ دی جائے گی اور حد تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے بد قسمت ہو جائے گا۔

سوشل میڈیا جس طرح کا ہتھیار ہے اس کو نہ تو اب تک کوئی سمجھ سکا ہے اور نہ ہی یہ کسی کے کنٹرول میں ہے ۔ نہ تو یہ کوئی یہودی سازش ہے اور نہ کوئی امریکی چال۔ نہ تو ہندو ہے اورنہ ہی مسلمان ، نہ تو یہ کسی کے خلاف ہے اور نہ یہ کسی کے ساتھ ۔ اسی لیے اب بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں سوشل میڈیا اب تک وہ اثر پیدا نہ کرسکا جو اس کو کرلینا چاہئے تھا ۔

پاکستان ساڑھے اکیس کروڑ انسانوں کے ایک ایسے ہجوم کا نام ہے جو مختلف سمتوں سے مختلف سمتوں میں سالوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کے پاس سوچنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک بہت ہی کامیاب فریب کے ذریعے اس پوری قوم کو ضروریات سے دور اور تعیشات کے نزدیک کر دیا گیا ہے ۔ مثلاً روٹی مہنگی پیکیج سستا، کیلکولیٹر مہنگا موبائل سستا، انٹر کرنا مہنگا‘ انٹر نیٹ سستا ۔ گزشتہ بیس سالوں کی تاریخ میں دنیا کے جن ملکوں کو ترقی کے رستے سے ہٹانا ضروری سمجھا گیا ان سب کے ساتھ یہی ہوا ۔ مشرق وسطی کی جنگ اب کسی کے قابو میں نہیں ہے ۔ یہ اسرئیل فلسطین تنازعہ اور اس کی آڑ میں پیدا ہونے والی داعش‘ آج پوری مشرق وسطیٰ کو نگل گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سعودی عرب کو آج اپنے عوام پر ٹیکس لگانے پڑ رہے ہیں۔

لیکن کیا یہ سب کچھ واقعی ایک ایسی سازش کے نتیجے میں ہوا جس کو سوشل میڈیا کہتے ہیں۔ اس پر بات ضروری ہے ۔اس مباحثے کو فوری شروع ہو جانا چاہئے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے اختیار پر عالمی سطح پر تو گفتگو ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں نہیں ۔ اس کے استعمال کے قوانین پر عالمی سطح پر تو بات ہو رہی ہے ، لیکن پاکستان میں نہیں۔ سوشل میڈیا پر یقین کے حوالے سے عالمی سطح پر تو بات ہورہی ہے پاکستان میں نہیں ۔ آج پاکستان میں سوشل میڈیا کرامتوں، ملامتوں اور علامتوں کا مجموعہ ہے ۔ مسلمان بنانے سے کافر قرار دینے تک کا کام بدرجہ اتم سر انجام دیا جا رہا ہے۔

اس پورے گفتگو کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے میرے سوشل میڈیا پر نوے فیصد پوسٹس صرف اور صرف مختلف عقائد کا پرچار کرنے والی ہیں ۔ ٹن ٹن ٹنا ٹن سے لے کر دھرنے تک اور پھر وہاں سے استعفیٰ تک سب کچھ وہاں موجود ہے ۔۔ آج گالیوں پر سبحان اللہ کہنے والے بھی سامنے آچکے ہیں۔ مجھے سمجھ میں نہین آرہا کہ گالی پر سبحان اللہ کہنے سے ثواب کس کو ملتا ہے اور گناہ کس کو۔ مجھے نہین معلوم کہ اگر میں نے اللہ کے پانچ نام فورا کسی کو نہیں بھیجے تو مجھے ثواب ملے گا یا گناہ‘ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کہ اگر یہ سب کچھ میں نے نہیں کیا تو میں جنت میں جاؤنگا یا دوزخ میں؟۔

اور یہی سوال میں آپ سب کے سامنے پیش کر رہا ہوں کہ اللہ کے واسطے عقل کو بیدار کر لیں۔کم از کم کسی بات پر بے شک کہنے سے پہلے یہ تو سوچ لیں کہ ہم نے کل اللہ کے حضور پیش ہونا ہے ۔ اور اپنے اعمال کا احوال بیان کرنا ہے ‘ وہاں سوشل میڈیا کی یہ غیر تحقیق شدہ پوسٹیں کسی کام نہیں آئیں گی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں