دنیا کے نقشے پر شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جیسے ہم ہیں ہیں ، دنیا کے نقشے کے اتنے نقشے نہیں جتنے ہمارے ہیں۔ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس کا کوئی حاصل وصول نہیں ہوتا ۔ اور کیونکہ ایسے کام میں ناکام ہونے کو کوئی تصور ہی نہیں اس لئے ہم صرف کامیاب ہوتے ہیں۔ مثلا وقت کیسے ضائع کرنا ہے ، ہر نئی ٹیکنالوجی کو کس طرح مشکوک بنانا ہے ؟ اور سیاست پر تو ہم میں سے ہر ایک نے پی ایچ ڈی کیاہے۔ پان کے کھوکھے سے لے کر شرافت بھائی کے ڈبو تک اور ، فہیم مین پوری والے کی دوکان سے گلزار ایزی لوڈ شاپ تک ہر جگہ سیاسی بحث جاری رہتی ہے ۔ وہ جو اس بحث میں شریک نہیں ہوتے یا تو گونگے ہیں یا ان کے منہ میں ماوا بھرا ہے ورنہ پانامہ سے اقامہ تک سب کچھ محلے کی دوکانوں پر ہی طے کر لیتے ہیں۔
کئی سال پہلے گھروں میں ٹیلیفون ہوتے تھے ۔اب فون میں گھر ہوتے ہیں خاص طور پر نوجوانوں کے ۔۔ ہاں یہ نوجوان پہلے بہت محنتی ہوا کرتے تھے ان پر بہت لوڈ ہوا کرتا تھا کم از کم عشق میں تو محنت کرتے تھے مگر قربان جائے لوڈ تو اب بھی ہے مگر اسے ایزی لوڈ کہتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے رہی سہی محنت کی عادت بھی ختم کرا ڈالی ۔ اب تو ہر شخص علامہ ہے ، قبلہ ہے ، سیاسی مبصر ہے ، بین الاقوامی امور کا ماہر ہے۔
سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ کالا بھجکڑ گورے ہونے کے ٹوٹکے بتا رہا ہو، اکثر طلاق یافتہ خواتیں گھر بسانے اور اکثر اوباش مرد بیوی کے ساتھ اعتماد سازی پر باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اور قربان جائیے مارننگ شوز پر جہاں ماہرین کا ایک ٹولہ قابض نظر آتا ہے ، جو آج ایک چینل پر ہیں کل دوسرے پر ہوں گے ۔
لیکن اب پاکستانی عوام کے مسائل گھمبیر ہو گئے ہیں ۔ خان کا سونامی اور نواز شریف کی بدنامی ہی کیا کم تھی کہ چیف صاحب بھی بول اٹھے ۔ قادری صاحب بھی گرج رہے ہیں ، خادم صاحب بھی برس رہے ہیں ۔ رانا ثنا اللہ استعفی نہیں دے رہے۔کل بھوشن کو پھانسی نہیں ہو رہی ۔گوادر پورٹ بن نہیں رہا ۔اکثر لوگوں کی توندیں بڑھ گئی ہیں اور سڑکوں پر پتلونیں گڑبڑ کر جاتی ہیں ، اس لیے ون بیلٹ ون روڈ والا فارمولہ سمجھ میں نہیں آرہا۔ امریکہ پیسے کم اور دھمکیاں زیادہ دے رہا ہے ۔ افغانی ہمارے بھائی ہیں ان کی مدد کرتے رہیں گے لیکن سرحد پر باڑھ لگانا بھی بے حد ضروری ہے ۔ اور ہاں دہشت گردون کو ان کے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ قوم نے دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دے دیا ہے ۔
صاحب گر برا نہ لگے تو عرض کروں کہ جو قوم غنڈہ گردی کا جوب نہ دے سکے وہ دہشت گردی کا کیا جواب دے گی۔ وہ تو آج کل اپنی بہنوں اور ماؤ ں کے سر اور پیروں کی حفاظت میں ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے۔ویسے ایک دوست کا کہنا ہے کہ سری اور پائے کے بغیر رشتے کچھ خاص اچھے لگیں گے نہیں ۔اور کراچی کا غم تو ہے ہی کچھ بھیانک ۔ باپ نے دادا کو دھمکی دی تو بیٹے آپس میں لڑ پڑے ایک نے کمال کیا ،،دوسرے نے دھمال اور تیسرے نے اپنی زندگی کو بنایا وبال ۔ اب دکھی ہو گئے اور شہر اور قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی چیک بکس اٹھا کر ولایت چلے گئے ۔ کچھ لوگ اب بھی دکھی ہیں ۔
لیکن میں آپ کو کراچی میں ہونے والی سب سے بڑی دہشت گردی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں ۔ مبارک ہو ہماری نسلوں کو نقل مافیا کھا گئی ہے۔ تینتیس ہزار بچوں نے امتحان دیا اور صرف گیارہ ہزار پاس ہوئے ۔ کتنا کمال ہے نہ ۔ نہ بچے انٹر کریں گے ، نہ میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلہ ہوگا ۔ نہ شہر آگے چلے گا نہ ملک اور نہ قوم ۔ کتنی آسان موت ہے ۔تعلیم کا گلا گھونٹ دیا گیا اور سیاست چلتی رہی ، تعلیم مر گئی اور تجارت چلتی رہی ۔ تعلیم برباد ہو گئی اور کھیل کھلواڑ ہوتے رہے ۔ آئے مل کر بین کریں ایک ایسی موت کا جس کے بعد کوئی اگلا جہاں نہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔