اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نومولود بچوں کی شرح اموات میں سرفہرست ہے۔ یہ رپورٹ پڑھ کر دکھ اور تکلیف کے ملے جلے جذبات ابھرے ‘ میں نے اس رپورٹ پر مزید تحقیقات کیں تو اس بات کا علم ہوا کہ یہ مسئلہ ہمیں کئی سالوں سے درپیش ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات شاید کبھی نہیں کیے گئے۔ فروری 2018 یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش نہایت زیادہ ہے اور پہلے مہینے میں ہر 22 میں سے ایک بچہ دم توڑ جاتا ہے۔
مزید رپورٹ کے مطابق افریقا اور دیگر غریب ممالک میں نومولود بچوں کی شرح اموات امیر ممالک سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ جیساکہ جاپان شیرخوار بچوں کے لیے بہترین ملک ہے جہاں ہر 1111 میں سے محض ایک بچے کی جان جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جاپان کے بعد محض ان ممالک میں ہی شرح اموات کم ہے جہاں تعلیم کی مضبوط بنیاد اور صحت مراکز ہیں۔ جیسا کہ آئس لینڈ (1000 میں سے1 بچے کی جان کاخدشہ)، سنگاپور ( ہر 909 میں سے 1)، فِن لینڈ (833 میں سے 1)، ایسٹونیا اور سلوینیا (769 میں سے 1) ، قبرص (714 میں سے 1)، لکسمبرگ، ناروےاور ساؤتھ کوریا (667 میں سے 1)۔
امریکہ ایک متمول ملک ہونے کے باوجود تنخواہوں میں استحصال اور صحت مراکز کی دسترس سب تک نہ ہونے کے باعث نومولود بچوں کے لیے اکتالیسواں محفوظ ملک ہے۔ پہلے دس ممالک افریقاء میں صحارا ریگستان میں واقع ہیں۔جہاں امید سے ہوئیں خواتین کو آگاہی نہیں ہوتی اور نہ ہی صحت مراکز ان کی دسترس میں ہیں۔ یہ ممالک وسطی افریقاء میں ہیں جہاں ہر 24 میں سے ایک بچے کی موت واقع ہوتی ہے۔صومالیہ ، لیسوتھو، گِنی بساؤ، اور جنوبی سوڈان ( 26میں سے 1 )، آئیوری کوسٹ( 27 میں سے 1)، مالی اور چاڈ( 28 میں سے 1)۔ ہر سال دنیا بھر میں 2.6 ملین بچے دم توڑ جاتے ہیں۔
تھر میں شرح اموات پاکستان کے کسی بھی حصے سے زیادہ ہے جہاں 1000 میں سے 100-90 بچوں کی اموات ہوتی ہے۔ تین عشروں سے ان ہندسوں میں ردوبدل نہیں ہوئی۔یہ بات اقوامِ متحدہ کے ایوارڈ یافتہ ، آغا خان کے صحت مرکز برائے خواتین اور اطفال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ نے نومبر 2014 میں کی۔
مسائل کا حل حکومتوں کابنیادی فرض ہے اور اس کی تازہ مثال فِن لینڈ کی ہے۔ 1930 میں فِن لینڈ نومولود بچوں کی شرح اموات میں سب سے آگے تھا تاہم اب یہ ملک زچہ بچہ کے لیے بہترین ممالک میں سےایک ہے۔ اس ملک کی خواتین دورانِ حمل خوش رہنے والی خواتین میں سے ہیں۔ یہ تبدیلی پچھلے 75 سال سے فِن لینڈ کی حکومت کی جانب سے مفت بےبی بکس دے کر کی گئی ۔یہ ڈبہ بچے کے جھولے کی طرح ہے جس کی سطح پر میٹرس ہوتا ہے جس میں چند عدد کمبل وغیرہ ہوتے ہیں تاکہ بچے کو گرم اور صاف رکھا جاسکے۔
چونکہ نمونیا بچوں کی اموات کی ایک اہم وجہ ہے۔ اسی سبب اس ڈبے میں گرم کپڑے اور بچوں کے گرم پاجامے بھی ہوتے ہیں۔ دیگر اشیاء میں اونی گرم جوتے، ٹوپیاں، دستانے اور موزے شامل ہیں۔ تقریباً ہر اکیس منٹ میں پانچ سال سے چھوٹے 29000 بچےمناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث دم توڑ دیتے ہیں۔ ستر فیصد سے زیادہ ایک کروڑ دس لاکھ چوں کی موت کی وجہ ڈائیریا، ملیریا، قبل از وقت پیدائش، نمونیا، پیدا ہوتے بچوں میں آکسیجن کی کمی ہے۔ یہ اموات اکثر ترقی پذیر ممالک میں دیکھنے میں آئی ہے۔ ایتھوپیا کے پانچ سالہ بچے کے مرنے کے امکانات مغربی ملک کے بچے سے 30 فیصد زیادہ ہے۔جنوبی ایشائی ممالک بھی شیرخواروں کے حوالے سے زیادہ خوش آئند نہیں۔دو تہائی اموات محض پہلے دس ممالک میں واقع ہوتی ہیں۔
کچھ اموات چیچک، ملیریا اور ٹیٹنس سے واقع ہوتی ہیں۔ غذائیت کی کمی، صاف پانی کا نہ ہونا آدھے سے زیادہ بچوں کی اموات کی وجہ ہے۔ یہ بیماریاں ناگزیر نہیں نہ ہی کوئی بچہ ان بیماریوں سے مرنے کا حقدار ہے۔ہر ایک کروڑ دس لاکھ میں سے 60 لاکھ بچے ویکسنز، اینٹی بائیوٹیکس، مائیکرونیوٹریشن سپلیمینٹس، مناسب دیکھ بھال اور ماں کا دودھ پلانے کے بارے میں مناسب آگاہی سے بچائے جاسکتے ہیں۔
ریسرچرز نے بریسٹ فیڈنگ ویکسن کا مشورہ دیا جو ملیریا، نمونیا اور ڈائیریا جیسی بیماریوں کے خلاف معاون ثابت ہونگے۔خاندانی منصوبہ بندی، گندگی سے ہوجانے والی بیماریاں، غذائیت سے محروم بچوں کے لیے یہ ایک نئی زندگی کی ماند ہے۔ ایک اور حکمتِ عملی کہ صرف تربیت یافتہ افراد ہی زچگی کریں۔ فارماسیوٹیکل کمپنیاں غریب ماؤں کے لیے اپنی مصنوعات یقینی بنا کر بھی مدد کرسکتی ہے۔ ڈاکڑعبدل وہاب خان بچوں کے ماہرِ صحت کے مطابق امید سے ہوجانے والی ماؤں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونا بھی شیرخواروں کی اموات کی بنیادی وجوہات میں سے ہیں۔ ڈائریا بھی موت کی ایک اہم وجہ ہے جس میں 53300 بچے پاکستان میں اس بیماری سے چل بستے ہیں۔ ملتان میں دسمبر 2017 میں ڈاکٹر عمران خان نے یہ بات غذائیت سے متعلق ایک پروگرام میں کی تھی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں حکومت وقت کی نزاکت کو سمجھے کہ کسی بھی معاشرے کی تعمیرو ترقی میں نومولود بچوں کی مناسب نگہداشت کس قدر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بالخصوص دیہی سطح پر قائم زچہ بچہ مراکز کو فعال کرے۔ وہاں زچہ کی دورانِ حمل ضروری ادویات‘ تربیت یافتہ زچگی اہلکار بمعہ ساز و سامان اور بعد ازپیدائش بچے کی ابتدائی نگہداشت کے لیے ضروری اشیاء کی مفت فراہمی کو یقینی بنائے۔ یاد رکھیں یہ ملک ایک گلشن ہے اور اس گلشن کا ہر پھول قیمتی ہے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں