The news is by your side.

پاکستان کی خارجہ پالیسی، نئے موڑ، امکانات اورگنجائش

سنہ ۱۹۷۱ میں بھارتی مداخلت کے نتیجے میں جنم لینے والی جنگ میں پاکستان کے اتحادیوں کی طرف سے بھرپور مدد نہ آنے کی وجہ سے ملک کے قائدین کو جوہری قابلیت کے حصول کے لئے مجبور ہونا پڑا ۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہتھیاروں کے حصول کی شدید ضرورت نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال وضع کئے جس کا مقصد نئی ریاست کو بچانا اور اس کی معاشی حالت کو سدھارنا تھا۔ policy

لیکن ابتدا سے ہی پاک امریکا تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہے ، خصوصا ساٹھ کی دہائی میں امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ زیادہ ہوا اور چین بھی پاکستان کے اور قریب آگیا ۔ اگرچہ کہ کسی بھی ملک کی پالیسی مکمل طور پر لچکدار نہیں ہو سکتی لیکن ملکی مفادات پر سمجھوتہ بھی نہیں ہو سکتا۔

اس وقت پاکستان کو خارجہ پالیسی کے لحاظ سے کافی چلینجز کا سامنا ہے ، ایک طرف یہاں داعش کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے تو دوسری جانب افغان طالبان سے مذاکرات بھی نتیجہ خیز نہیں ہو رہے حتی کہ افغان طالبان تو افغان حکومت سے بھی جڑتے نظر نہیں آرہے ۔حالیہ تناظر میں امریکا نے جوہری تجارت میں ملوث سات پاکستانی کمپنیوں پر بھی پابندی لگا دی ہے تو ایک جانب بھارت کی طرف سے لائن آف کنڑول اور ورکنگ باونڈری کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔

امریکا کی بات کریں توٹرمپ انتظامیہ نے رواں سال یہ باور کروایاکہ پاکستان اپنی حدود میں موجود دہشتگردوں کے خلاف ڈو مور کر کے دکھائے جبکہ اس سلسلے میں پاکستان کو سنگین نتائج کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ۔تاہم چند ہفتوں پہلے ہی پنٹا گون کے ترجمان کرنل مائیک انڈریوس یہ بھی کہتے نظر آئے کہ امریکا پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور وہ پاکستان میں دشمنوں کا تعاقب نہیں کر سکتا ، پاکستان خود حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے افغانستان میں امن عمل کو کوئی نقصان نہ پہنچے تو امریکا کی جانب سے یہ دورخی پر مبنی عمل آج سےنہیں قیام پاکستان کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، ہمیں ایک ایسے دور کی ضرورت ہے جس طرح کا دور آغا شاہی اور منیر احمد کا تھا ۔ ہمارے ملک کی پالیسی ہوا میں معلق نہیں رہنی چاہیے ۔مبصرین کا یہ خیال بھی ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق یہ واضح ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ روس سے بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔واضح رہے کہ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری ۲۰۱۴ کے بعد سے آئی ہے جب روس نے پاکستان کوہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی اٹھا لی تھی اور پاکستان کو لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے معاہدوں پر دستخط بھی کئے تھے ۔

جہاں تک بات رہی پاکستان ، ایران اور چین کے تعلقات کی ان میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے ، چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کی تعمیر اپنے تمام تر تحفظات کی باوجود لائق تحسین ہے ۔

ایران کے بارے میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکی دبائو قبول نہیں کیا اور اسکا ذکر وکی لیکس میں بھی ہوا لیکن اس دباؤ کے قبول نہ کرنے والے رویہ کو عملی طور پر سامنے بھی آنا چاہیے تھا ،ایران کے ساتھ تعلقات کے نتیجے میں ہم زراعت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں کیوں کہ فارن ایکسچینج ریٹ پر بھی با ت ہو سکتی ہے اوروہ بھی ایک ایسے ملک کے لئے فائدہ جس کی معیشت کا انحصار ہی زراعت پر ہو۔

اب رہا بھارت اور مودی سرکار کا سوال تو دفتر خارجہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت کو اس کی دھمکیوں کا سبق مناسب وقت اور طے شدہ مقام پر چکھائیں گے ۔

اس وقت پاکستان کو کئی کڑے فیصلے کرنا ہوں گے، کتنے ہی ممالک جن میں سعودی عرب ، بھارت ، چین وغیرہ شامل ہیں وہاں پاکستانی قیدی موجود ہیں ان کی رہائی اور قونصلر رسائی کے بارے میں بات کرنا ہو گی ۔کشمیرسمیت دنیا بھر کی محکوم قوموں کے لئے اپنے اخلاقی موقف پر قام رہنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر ایک بہترین صلاحیتیں رکھنے والے شخص کو وزیر خارجہ مقرر کرنا ہوگا ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں