ویسے تو آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے خرید و فروخت کے معاملے میں پاکستان میں زیادہ تر منفی خبریں ہی سننے کو ملتی ہیں لیکن گزشتہ روز ایک دوست سے ملاقات کے دوران ایک ایسا واقعہ سننے کو ملا جسے سن کر ہنسی تو بہت آئی لیکن ہنسی سے زیادہ اس کہانی میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے اسی لیے اپنی تحریر کے ذریعے آن لائن شاپنگ کرنے والوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں ، چند روز قبل ایک دوست کی عیادت کے لیے اس کے گھر گیا عیادت کے بعد معمول کے مطابق گپ شپ کا سلسلہ جاری تھا ایسے میں اس نے اپنے ساتھ ہونے والے ایک ایسے فراڈ کا قصہ سنایا جس کا ذکر صرف فلموں میں ہی سنا تھا۔ موصوف پالتو جانوروں کے بہت شوقین ہیں آئے روز کسی نہ کسی جانور یا پرندے کی آمد ان کے پیٹس کلیکشن میں اضافہ کرتی رہتی ہے تو اس بات بھی ایسا ہی ہوا جب کچھ ماہ قبل جناب کو کتا پالنے کا شوق ہوا تو جرمن شیفرڈ کی نسل کا ایک کتے کا بچہ خرید لائے اور پالنا شروع کردیا۔
کتے کی ٹریننگ جاری ہی تھی ایسے میں احساس ہوا کہ جرمن شیفرڈ کتے کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں دکھائی نہیں دے رہیں مثلاً چند ماہ بعد اس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں جو کہ نہیں ہوئے جیسے جیسے کتا بڑا ہونے لگا کتے کی رنگت بدلنے لگی جس سے اندازہ ہوا کہ جناب کو جو کتا جرمن شیفرڈ کہہ کے بیچا گیا تھا وہ دراصل گلی محلے میں گھومنے والا ایک عام کتا ہے جسے باقائدہ رنگ کرنے کے بعد بیچا گیا تھا اور بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگوں اور جسم کے دیگر حصوں کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوگیا اب اب کتے کی اصل حالت کچھ ہوں ہے۔
یہ واقعہ سننے کے بعد میں نے فوراً سوال کیا بھائی جس سے کتا خریدا تھا۔ اس کو پکڑو کہ یہ کیا تھما دیا اس نے تمھیں تو جواب ملا کہ بندہ رابطے میں نہیں آرہا اور وہ کتا کسی دکان سے نہیں بلکہ آن لائن ایڈورٹائزنگ کی ایک ویب سائٹ پرآنے والے ایک اشتہار کے ذریعے 18 ہزار روپے کے عوض خریدا تھا جبکہ جرمن شیفرڈ کتے کے بچے کی قیمت مارکیٹ میں 30 سے 35 ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ یعنی سستے کے چکر میں ہمارے دوست اچھا بھلا نقصان کر بیٹھے یہ تو ہوا کتے کا معاملہ اب ذرا اس آن لائن شاپنگ کے تحت ہونے والے کچھ دیگر فراڈ کا بھی ذکر کر لیتے ہیں۔ چند سال قبل آپ نے کالے بچھو کے حوالے سے بھی متعدد خبریں سنی ہوں گی کہ کالا بچھو لاکھوں اور یہاں تک کہ ایک کروڑ روپے میں بک رہا ہے جسے بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے اور اس سے ایڈز اور دیگر بیماریوں کے علاج کی دوائی بنائی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے بھی بڑے اشتہارات آن لائن مارکیٹنگ کے فورمز پر بھرے پڑے تھے میں ان دنوں اس آن لائن دھوکے کے حوالے سے متعلق اسٹوری پر کام کر رہا تھا تو ایک وائلڈ لائف ایکسپرٹ جو کہ اب میرے اچھے دوست بھی ہیں ،ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی اس دھندے سے جڑے کچھ فراڈز میرے سامنے رکھے کہ کس طرح لوگ اس کے چکر میں اپنے پیسے لٹا رہے ہیں۔
آن لائن مارکٹنگ کی مختلف ویب سائٹس پر کالے بچھو کی خرید و فروخت کے اشتہارات کی بھرمار لگی ہوئی جس میں لوگوں کو کالے بچھو کی خرید اور فروخت دونوں کو بیچنے کا لالچ دیا جا رہا ہے ۔خبروں کے برعکس سستے دام پر لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جا رہا ہے اور جب وہ خریدنے جا رہے ہیں تو انہیں مضافاتی علاقوں میں بلا کر لوٹا جارہا ہے اور دوسری جانب کچھ ٹھگ بچھوؤں پر کالا رنگ کرکے لوگوں کو چونا لگا کر بیچ رہے ہیں ۔یہ سب ایک دھوکہ ہے بیرون ممالک میں کالے بچھو کی کوئی خاص ڈیمانڈ نہیں ۔وہاں یہ باآسانی 10 ڈالر میں دستیاب ہوتے ہیں بہت سے ممالک میں تو اسے بڑے مزے لے کر کھایا بھی جاتا ہے لیکن یہاں تو اندرون سندھ میں اچھا خاصا دھندا بنا ہوا ہے لوگ کام دھندے چھوڑ کر صرف کالے بچھوؤں کی تلاش میں نکل پڑے ہیں جس کی وجہ سے نیچر میں خطرناک تبدیلیاں بھی آرہی ہیں ،تھر میں مرنے والوں موروں کی بڑی وجہ ہی ان بچھوؤں کا نایاب ہونا ہی ہے کیونکہ بچھو مور کی پسندیدہ غذا ہے۔
اب بات ہوجائے آن لائن شاپنگ کے ذاتی تجربے کی تو ایک مرتبہ ہم نے بھی ایک آن لائن شاپنگ اسٹور سے جہاں ٹی شرٹس کی سیل لگی ہوئی تھی۔ اٹھارہ سو روپے کے عوض چار ٹی شرٹس آفر کی جا رہی تھیں جو دیکھنے میں انتہائی پرکشش نظر آرہی تھیں لہذا ہم نے آرڈر پلیس کردیا اور دو روز بعد ہمارا آرڈر دروازے پر موجود تھا، ہم نے آرڈر کے پیسے دیے اور اپنا پارسل لے لیا مگر جب ٹی پارسل کھول کر ٹی شرٹس دیکھیں تو ان کا صرف رنگ وہی تھا جو تصویر میں دکھایا گیا تھا لیکن کوالٹی اتنی خراب کی 2 دھلائیوں کے بعد ٹی شرٹ تھیلا بن گئی اور پھر شاید آج گھر میں پونچھے صفائی کے کام آرہی ہوگی ۔اس دن کے بعد سے کبھی کوئی بھی شے آن لائن آرڈر کرنے کی اپنی تو ہمت نہیں ہوئی خیر بات کا اختتام بس اتنا کہہ کر کرنا چاہوں گا کہ معاشرے میں جدت آرہی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت آن لائن مارکٹنگ اور شاپنگ بھی ہے جس سے ہم سب کا بلا واسطہ یا بل واسطہ کوئی کا کوئی تعلق تو بن ہی گیا ہے۔
یہاں اگر دھوکے ہوتے ہیں تو مناسب قیمت پر معیاری چیزیں فراہم کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے ضرورت محض اس بات کی ہے کہ خریداری چھان پٹک کر کی جائے اور جس چیز کے بارے میں معلومات نہ ہوں پہلے اس کے باری میں تھوڑا بہت جان لیا جائے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جہاں آن لائن کی اس سہولت سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملا ہے ،اچھے مواقع ملے ہیں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد بھی شہروں میں دستیاب اشیاتک با آسانی رسائی حاصل کررہے ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی اوچھی حرکتوں اور دو نمبری کرکے لوگوں کے چونا لگا کر اس سہولت سے عوام کا دل بد دل کرنا چاہتے ہیں۔
افسوس نا ک بات یہ ہے کہ کہیں کسی بھی سطح پر اس قسم کی دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔ متعلقہ ادارے اگر اس جانب تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو کئی لوگ لٹنے سے بچ سکتے ہیں او عوام کو بھی چاہئیے کہ کوئی بھی چیز آن لائن خریدیں تو اس کی پرکھ اور جانچ پڑتال اچھی طرح سے کرنے کے بعد ہی خریدیں۔
bostancı escort
ataşehir escort
kadıköy escort bayan
ataşehir escort
kartal escort
tuzla escort
pendik escort
bostancı escort
anadolu yakası escort
göztepe escort
alanya escort