بچوں جیسی شے اللہ نے کائنات میں شاید ہی کوئی بنائی ہوگی جب بھی کبھی کسی بچے یا بچی کو دیکھتا ہوں تو دل میں اللہ کی تعریف اور اس بچےیا بچی کے لئے محبت ضرور جاگتی ہے بس ایسے کچھ بچوں کی محبت کے بارے میں لکھ رہا ہوں جن کے لئے محبت تو جاگی لیکن ساتھ ہی اس دعا کے ساتھ اللہ ان کے مستقبل کو آسان بنائے‘ آمین۔
چند روز قبل دوستوں کے ہمراہ تھرپارکر جانے کا پروگرام بنا ، آدھی رات کو اپنے چار دوستوں کے ہمراہ تھرپاکر کے لئے روانہ ہوگئے ۔گھارو ‘ٹھٹہ اور بدین کے خوبصورت راستوں میں رکتے رکاتے دونوں جانب لہلہاتی فصلوں کو دیکھتے ہوئے صبح مٹھی پہنچے وہاں کا بازار گھوم کر آگے کی جانب رخت سفر باندھا صحرا کے بیچ و بیچ گزرتی ہائی وے پر لطف اٹھاتے ہوئے سفر جاری رہا۔
اسلام کوٹ سے قبل تھر کی روایتی جھوپڑیاں جنہیں (چاؤرا) کہتے ہیں نظر آنی شروع ہوگئیں اور وہیں سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی ٹولیاں نظر آنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ‘ جو بیچارےصحرا کی تپتی ہوئی ریت میں سڑک کنارے صرف اسی آس میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ یہاں سے گزرنے والے سیاح ان کو کچھ پیسے دے جائیں اور یہ سلسلہ نگرپارکر تک جاری رہا ۔
ہم نے جہاں گاڑی روکتے ‘ بچے لپک کر گاڑی کے پاس آجاتے اور ہر بچے کے لب پر بس ایک ہی بات ہوتی تھی ۔ ’’چاچا خرچی دو نا‘‘ اور ہم بچوں میں پیسے تقسیم کرکے آگے چل دیتے وہ تو بھلا ہو ہمارے ایک دوست کا جس نے خصوصاً بچوں میں تقسیم کرنے کے لئے کراچی سے ہی نئے نوٹوں کی ایک گڈی اپنے ہمراہ رکھ لی تھی ورنہ اس پورے راستے میں شاید ہی کوئی جگہ ہوتی جہاں سے کھلے پیسے مل جاتے ۔
خیر اسلام کوٹ اور نگر پارکر کے بیچ ایک مقام پر چاؤرا نظر آیا تو تصاویر بنوانے کے لئے ہم نے وہاں کچھ دیر قیام کیا ، وہیں کچھ بچوں سے بھی ملاقات ہوئی جن کا تعلق قریب میں واقع ایک گاؤں سے تھا ہم نے وہاں موجود ایک بزرگ سے درخواست کی کہ ہمیں چاؤرے میں تصاویر بنوانی ہے جس کی اجازت درکار ہے ان بزرگ نے فوراً ہی ایک بچے کو ہمارے ساتھ چاؤرے کی جانب روانہ کردیا تپتی ہوئی دھوپ سے ہوتے ہوئے جب چاؤرے کے اندر پہنچے تو بالکل ویسا ہی احساس ہوا ‘ جیسا نان اے سی کمرے سے ائیرکنڈیشن والے کمرے میں جاکر ہوتا ہے ۔
ہم نے وہاں چند تصاویر بنائیں‘ اس بچے نے ہمیں وہاں ہمیں مور بھی دکھائے پھر اس سے چھوٹا سا سوال جواب کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ بچے سے پوچھا کہ یہاں کے لوگ گزر بسر کیسے کرتے ہیں تو اس نے بتا یا کہ سامنے ہمارے کھیت ہیں جو آج کل بارشوں کے باعث ہرے بھرے نظر آرہے ہیں ورنہ اکثر بنجر ہی رہتے ہیں اور آتے جاتے راہ گیروں سے پیسے مانگ کر اپنے گھر چلاتے ہیں۔
تھر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین ڈرائیور
ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں نہ آگے 30 سے 40 کلومیٹر تک کوئی شہر تھا ‘ نہ پیچھے 30 سے 40 کلومیٹر تک‘ ایسے میں وہاں کے بچوں بھیک مانگنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں، لگ بھگ یہی صورتحال پورے تھر کی ہی دیکھی۔ راستے میں جہاں جہاں سے گزرے ہر تھوڑی دیر بعد چھوٹی چھوٹے گاؤں ضرور نطر آئے لیکن نہ کوئی بنیادی صحت کا مرکز نہ ہی کوئی درسگاہ نظر آئی ۔
مٹھی سے قبل ایک جگہ تو دیڑھ گھنٹہ ہمیں سڑک پر صرف اس وجہ سے کھڑا رہنا پڑا کہ وہاں گاؤں والوں کی جانب سے اس بات پر احتجاج کیا جا رہا تھا کہ کوئی ٹرک والا انکی ایک گائے کو ٹکر مار گیا تھا اور وہ گائے کی لاش کے ساتھ ہائی وے پر احتجاج کر رہے تھے ، اور احتجاج کے علاوہ کریں بھی تو کیا ، نہ کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو پانی ایسے میں ان کا یہ واحد سہارا مویشی ہی تو ہیں۔
ہم نے وہاں ایک ایسا منظر بھی دیکھا جس کا ذکر یہاں نہ کیا ‘ تو تحریر ادھوری رہے گی کارونجھر کی پہاڑیوں میں ایک بچہ محض دو سو روپے کے لئے اپنی جان تک خطرے میں ڈالنے کو تیار دیکھا جس کا کہنا تھا کہ وہ صرف تین منٹ میں دیو قامت پہاڑ پر بھاگتے ہوئے چڑھے گا اور واپس بھاگتے ہوئے اترے گا اور ایسا وہ صرف اس لئے کرے گا کیونکہ اسے چند سو روپے مل جائیں گے۔
نگر پارکر میں جس گیسٹ ہاؤس میں ہم نے رات گزاری تو وہاں موجود اسٹاف سے گپ شپ ہوئی ان سے بھی یہ ہی سوال پوچھا کہ جب یہاں بنیادی سہولیات ہی نہیں اور نہ کوئی دینے پر تیار ہے تو تم لوگ سندھ کے دیگر اضلاع کی جانب رہائش کیوں اختیار نہیں کرلیتے تو اس کا جواب تھا‘ سر !آپ کراچی میں پیدا ہوئے ہیں جیسی محبت آپ کو کراچی سے ہے‘ اتنی آپ کو دنیا کے کسی شہر سے نہیں ہوسکتی۔ بات میں اس کی وزن تھا ، وہ مرجائیں گے لیکن اپنی دھرتی نہیں چھوڑیں گے اور بھلا کیوں چھوڑیں یہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ ایک سا برتاؤ کرے اپنے تمام شہریوں کو ہی ان کے اپنے شہر میں روزگار اور زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا کرے کیوں وہاں کے بچے صرف بھیک مانگنے پر مجبور ہیں وہاں کے بچے ملک کے دیگر بچوں کی طرح اسکول کیوں نہیں جا سکتے ؟۔
ریاست نے کیوں ان بچوں کو اس تپتے صحرا میں بلکنے کے لئے اکیلا چھوڑ رکھا ہے ؟ حکومتوں کی جانب سے تھر کو لے کر تبدیلی کے دعوے تو بڑے کیے جاتے ہیں لیکن وہ دعوے تھر واسیوں کی زندگیوں میں کیوں دکھائی نہیں دیتے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کا انتظار تھر واسیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی رہے گا لیکن نجانے کب یہ سوالات حکمران طبقے کے کانوں میں گونجیں گے جیسے میرے کان میں آج تک ان ننھے بچوں کی وہ آواز گونجتی رہتی ہے ‘ چاچا خرچی دو نا ۔