The news is by your side.

چراغ سب کے بجھیں گے ‘ ہوا کسی کی نہیں

احتساب عدالت میں گزشتہ روزوفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو روکا گیا تو حکمران جماعت نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ استعفیٰ دینے کی دھمکی ، ریاست کے اندر ریاست ‘ کٹھ پتلی وزیر داخلہ اور نہ جانے کیا کیا بیان داغ ڈالے۔ ایسے میں مجھے ماضی کے کچھ پرانے واقعات یاد آگئے جن پر اس وقت کے وزیر داخلہ اور حکمران جماعت کے دیگر رہنما کچھ لب کشائی کرنے سے قاصر رہے تھے۔

کراچی کی سب سے بڑی درس گاہ جامعہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طلباء تنظیم کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے لئے آنے والے دو رہنماؤں ‘فاروق ستار اور عامر لیاقت جو ماضی میں ممبر قومی اسمبلی اور وزیر رہ چکے تھے اور دونوں اسی جامعہ سے فارغ التحصیل تھے ، جامعہ کراچی میں ان کو داخلے سے روک دیا گیا اور وہ طلباء تنظیم کے کارکنوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر مین گیٹ سے جائے تقریب میں پہنچے تھے۔

یہ و ہی وقت تھا جن دنوں ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونے والے آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار بہت زیادہ کر رہی تھی ، ایم کیو ایم کے سینئر اور پاکستانی سیاست کے بھی سینئر ترین سمجھے جانے والے سیاست دان فاروق ستار کے گھر پر چھاپہ اور کراچی پریس کلب ان کی گرفتاری کے مناظر کون بھول سکتا ہے‘ جب فاروق ستار وطن مخالف نعرے لگانے والے اپنے لیڈر سےاظہارِ لاتعلقی کرنے آئے تھے اور وہ گڑ گڑاتے رہے کہ بس ایک بات ان کو کرنے دی جائے‘ اس کے بعد وہ ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی ۔ ان کی گرفتاری کے وہ مناظر کئی روز تک ہیڈ لائنز کا حصہ بنے رہے لیکن اس وقت نہ کوئی نوٹس ہوا ‘ نہ کوئی انکوائی ٹیم تشکیل دی گئی‘ اس سے قبل این اے 246 کے الیکشن میں خبریں سامنے آتی رہیں کہ ایم کیو ایم کے ووٹرز کو پریشان کیا جا رہا ہے اور اس الیکشن کی کوریج کرنے والے رپورٹرز چلاتے رہے کہ ان کو پاسز موجود ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز کے اندر جانے نہیں دیا جا رہا لیکن تب بھی نہ کوئی نوٹس نہیں ہوا نہ کوئی انکوائری بیٹھی ۔

مجھے کیوں روکا؟ وفاقی وزیرداخلہ کا انکوائری کا حکم

اس کے بعد دور آتا ہے پیپلز پارٹی کی مشکلات کا ، آصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان داغ کر خود تو بیرون ملک چلے گئے اور پارٹی کے رہنماؤں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے چھوڑ گئے ایسے میں ایچ ای سی سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے معاملے پر اس وقت کے صوبے کے چیف ایگزیگیٹو اور کراچی آپریشن کے کپتان قائم علی شاہ چلاتے رہے کہ اس معاملے پر ان کی رٹ کو چیلنج کیا گیا ہے‘ ان کو بائی پاس کرکے یہ کارروائی کی گئی ہے‘ پھر آصف علی زرداری کی واپسی کے روز ہی ان کے پرانے بزنس مین دوست کے دفاتر پر ایک کے بعد ایک کرکے چھاپے پڑنے لگے۔ جس پر پیپلز پارٹی کی جانب سے کافی شور مچایا گیا ‘ پھر مجھے بدین کا سلطان راہی ذوالفقار مرزا بھی یاد آجاتا ہے جو کھلم کھلا ٹی وی پر بیٹھ کر آصف زرداری اینڈ کمپنی کو گالیاں دیتا رہا ۔ بدین کے پولیس اسٹیشن میں گھس کر پولیس افسران کے موبائل فون پٹختا رہا لیکن اس کے خلاف بھی کچھ کارروائی نہ ہوسکی کیونکہ پیپلز پارٹی ان کے معاملے پر عدالتی معاملات میں گھری ہوئی تھی اور موصوف کو سابق وزیر داخلہ کی حمایت بھی حاصل تھی جن کے حکم پر ان کو کراچی کی عدالت سے ان کے گھر تک اس وقت رینجرز کی سیکیورٹی دی گئی‘ جب سندھ پولیس ان کو گرفتار کرنے پہنچی تھی اور خوب تماشہ لگا تھا ۔

اس پر بھی حکمران جماعت کی جانب سے کیا نوٹس اور کیا بیانات آنے تھے ‘ خیر حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے پھر ایک وقت ایسا آیا جب حکمران جماعت اور مقتدر اداروں میں دوریاں بڑھنے لگیں ، پانامہ کیس کا فیصلہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف آیا تو حکمران جماعت کی جانب سے دبے لفظوں میں سازشوں کے بیانات آنے شروع ہوگئے ، این اے 120 کا الیکشن بھی آگیا جس کی مہم کے دوران مریم نواز کئی مرتبہ دبے لفظوں مقتدر اداروں کو للکارتی ہوئی نظر آئیں۔

اس وقت تو لگ رہا تھا کہ جیسے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور یہ این اے 120 کا نہیں این اے 246 کا معرکہ ہے، مسلم لیگ ن کے ووٹر شکوے کرتے نظر آئے کہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنے میں مشکلات کا سامنہ ہے۔ لاہور کے صحافی بھی وہی پرانا شکوہ کرتے نظر آئے انہیں پاسز رکھنے کے باوجود پولنگ اسٹیشنز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی لیکن پھر بھی حکمران جماعت نے وہ حلقہ جیت لیا اس کے بعد احتساب عدالت میں نواز شریف کی پیشیاں شروع ہوگئیں اور آج جب موجودہ وزیر داخلہ کو احتساب عدالت میں روکے جانے پر آگ بگولہ ہوتے ہوئے دیکھا تو ماضی میں دیگر جماعتوں کے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات یاد آگئے‘ جس پر موصوف کا یا ان کے پیش رو کا کبھی کوئی بیان دور دور تک نہ پڑھا ‘نہ سنا تو آج اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعے پر اتنا واویلا کیوں۔۔ آخر احمد فراز کئی سال پہلے فرما چکے کہ چراغ سب کے بجھیں گے ‘ ہوا کسی کی نہیں ؟؟؟؟


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں