The news is by your side.

پولیس کی کارگردگی پر سوال کیوں اٹھتے ہیں؟؟

پچھلے دو دن سے ایک مسئلے کے چکر میں سہراب گوٹھ پولیس اسٹیشن میں آنا جانا چل رہا تھا ان دو دنوں میں پولیس کے حوالے سے کچھ ایسی چیزیں سامنے آئیں جن کا ذکر نہ کیا تو ذیادتی ہوجائے گی کیونکہ تنقید تو ہم ڈھڑلے سے کرتے ہی ہیں۔

سب سے پہلے ذکر کرتا ہوں ون فائیو کا کیوں کہ سب سے پہلا پالا ان ہی سے پڑا تھا جو کال کرنے کے کچھ 15 منٹ بعد موقع پر پہنچ گئی تھی جبکہ جس علاقے کی بات ہورہی ہے وہاں کا تقریباً ایک کلو میٹر راستہ کچا ہے پھر بھی 15 منٹ میں پہنچ جانا بُرا رسپانس نہیں کہا جاسکتا۔

اب بات ہوجائے تھانے کی تو تھانے کے ایس ایچ او سہراب گوٹھ سے جن سے پہلے بھی ایک دو مرتبہ فون پر رابطہ رہا ہے ان کے پاس جا پہنچا، ایس ایچ او سہراب گوٹھ اشرف جوگی کا رویہ انتہائی ملنسار اور پرفیشنل تھا یعنی ہر گز ویسا نہیں تھا جیسا پولیس کا تاثر بنا ہوا ہے۔

عزت کے ساتھ چائے کا پوچھا مسئلہ پوچھا اور حل کی یقین دہانی کروائی اور اسکے اگلے ہی روز مسئلے کے حل کے لئے عملی اقدام بھی اٹھا لیا جبکہ اس بیچ کچھ نہیں تو 8 سے 10 بار فون پر رابطہ بھی رہا جو آخری مرتبہ رات کو 12 بجے کے قریب ہوا تھا پھر اگلی صبح بات ہونے پر بتایا کہ رات دیر تک ریڈ پر تھے، اب آجائیں تھانے میں کیا کیا دیکھا ایس ایچ کے ساتھ جتنی دیر بیٹھا رہا مسلسل انکا موبائل بجتے یوئے دیکھا کبھی کوئی مسئلہ تو کبھی کچھ حضرات کو اپنی پراپرٹی کا مسئلہ لیکر آتے دیکھا تو کبھی کچھ اور لیکن سب کے ساتھ ہی ایس ایچ کا رویہ عاجزانہ اور پروفیشنل ہی تھا۔

اب بات ہوجائے دیگر اسٹاف کی تو کیونکہ 3 سے 4 بار چکر لگا تو باہر دروازے پر موجود اہلکاروں نے بھی ہمدردانہ انداز سے ہی بات کی بھائی کیا ہوگیا تیسرا چکر ہے خیریت تو ہے جبکہ باہر دروازے پر ڈیوٹی پر معمور اہلکاروں کو تو علم ہی نہیں تھا کہ میں صحافی ہوں ۔۔ تو نہ دن میں چین نہ رات کو سکون اس سے تو صرف ایک ہی اندازہ ہوا کہ پولیس انتہائی کم افرادی قوت کے ساتھ کام کر رہی ہے اس پر بھی 12 گھنٹے کی نوکری کا تو سوچ کر ہی سر گھومنے لگ جاتا ہے کیونکہ ہمیں تو آٹھ گھنٹے سے زیادہ دفتر میں بیٹھنا تھکا دیتا ہے لیکن ایسے میں اہلکاروں کی 12 گھنٹے کی نوکری اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر کی چوبیس گھنٹے کی نوکری اور اس میں بھی ایک سے ایک تیس مار خان کو ڈیل کرنے بعد کیسے پولیس کی پرفارمنس میں بہتری آسکتی ہے۔

پولیس سے اگر مطلوبہ رزلٹس لینے ہیں تو بلاشبہ حکام کو نفری بڑھانی ہوگی اور اہلکاروں و افسران کو ذہنی و جسمانی ریلیف بھی دینا ہوگا ۔۔۔ ورنہ بہتری کی امید لگانا چھوڑ دیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں