The news is by your side.

پٹھان کی چائے ، سادہ خوشبو کا پان اور شہباز شریف

ہاں بابو !ذرا دو سادہ خوشبو پان تو لگانا ، میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ اپنے محلے کی پان شاپ والے کو صدا لگائی، دوست کہنے لگا یار تم تو بہت کم ہی پان کھاتے ہو اور کل ہی میرے ساتھ تو کھایا تھا پھر آج دوبارہ کیوں ؟؟؟ کیا روزانہ کی بنیاد پر کھانا شروع کر دیا ہے کیا؟۔ میں نے سر ہلا کر جواب دیا نہیں بھائی آج کا پان کھانے کی وجہ کچھ اور ہے اور اس کو شہباز شریف کا کراچی والوں پر کسا جانے والا وہ جملہ سنایا ، جس پر دوست نے بھی خوب ہنسی اڑائی اور کہا کہ ’ہاں میں نے سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹس دیکھی تھیں‘۔

خیر ہم دونوں نے ہی پان منہ میں دبایا اور چلتے بنے ، میرے دوست جو کہ ایک نجی ادارے میں مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کرتا ہے، سیاست میں کچھ خاص دلچسپی نہیں رکھتا لیکن ہے تو کراچی والا۔۔ سو پوچھنے لگا کہ یار یہ چھوٹے میاں صاحب نے کراچی میں آکر مہاجروں کے بیچ بیٹھ کر ایسی بات کیسے کردی ، تو پھر ایک گفتگو کا چھوٹا سا سلسلہ شروع ہوگیا ۔

میں نے بتایا کہ بھائی کراچی میں اب مہاجروں کی وہ دھاک رہی کہاں ، اور اس کا مکمل سہرا ایم کیو ایم کے قائد اور ان کے بعد متحدہ کی موجودہ قیادت کو جاتا ہے، پہلے الطاف حسین نے مہاجروں کو اپنی عجیب و غریب حرکات سے ذلیل و رسوا کروایا پھر ان کے مائنس ہوجانے کے بعد 23 اگست کی صورت میں شہر قائد کے باسیوں کو محسوس ہوا کہ اب شاید ا ن کی جماعت ایک سیاسی جماعت بن کر ابھر پائے گی لیکن اس بعد جو کچھ ہوا وہ سب ہمارے سامنے ہی ہے ۔

حصولِ اقتدار کے لیے کچھ لوگوں نے طوفان بدتمیزی کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس کو تھمنے میں بہت وقت لگ گیا ، اس دوران ایک دوسروں پر کرپشن کے وہ الزامات لگائے گئے جو کبھی مخالفین نہ لگا سکے ، پارٹی میں خواتین کے حوالے سے مغلظات بھی بکی گئیں اور خواتین ورکرز کو رسوا کیا گیا ، اپنی سگی اولادوں کے غم میں نکلنے والے آنسوؤں کو بھی نہیں بخشا گیا انہیں بھی مگر مچھ کے آنسوؤں تعبیر کیا گیا، اور نجانے کیا کیا اگر تو اس سب کے بعد تمھیں کیا لگتا ہے؟، کراچی والوں کو کوئی باہر سے آکر ایسے جملوں سے بھی نہ نوازے تو کیا کرے؟؟؟۔ ورنہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سابق وزیر اعظم کو کراچی سے متعلق اپنے مشہور زمانہ (مکھی) لفظ کے بیان پر معافی مانگنی پڑ جاتی تھی۔

’’لیکن ایسا کیا کہہ دیا شہباز شریف نے جو اتنا ہنگامہ ہے ؟‘‘۔۔۔میں نے دوست سے پوچھا ؟۔اس پر دوست نے مجھے گھورتے سوال کیا ! ۔’’یار یہ تم کیسی بات کر رہے ہو تمھیں اس جملے میں تضحیک نہیں نظر آئی ؟‘‘۔ میں نہ کہا کہ ہر گز نہیں تب ہی تو میں نے آج اپنی عادت کے خلاف ایک ہی دن بعد پان کھایا ہے اور جو چیز ہم کھاتے ہیں اس میں تضحیک کیسی اور جہاں تک مخصوص لہجے کی بات ہے تو وہ بھی کراچی والوں کی اپنی ایک شناخت ہے اب اگر لاہوری اسکول کو سکول بولتے ہیں تو کیا تمھیں اس سے کوئی اعتراض ہوتا ہے؟‘‘۔

دوست خاموش ہوگیا ، پھر ایک دم بولا بھائی تو اس معاملے پر اتنا شور کیوں مچا ہوا ہے سوشل میڈیا پر؟۔ بس یہ بولنا تھا کہ دوست نے ہمارے دل کے تار چھیڑ دیے اور میں نے اسے سوشل میڈیا پر چلنے والے ڈرامے کا حال بیان کرنا شروع کردیا کہ بھائی سوشل میڈیا پر اس معاملے کو کراچی والوں سے زیادہ تو وہ لوگ اچھال رہے ہیں جو شہباز شریف کی پنجاب میں بہتر کارگرگی کے بعد کراچی میں ان کی آمد پر تنقید کے لئے کچھ نہ کچھ دھونڈ ہی رہے تھے ایسے میں شہباز شریف نے اپنے بے وقوفانہ بیان سے ان کو ایک جواز فراہم کردیا ہے۔

پھر میں نے اس کو بتایا کہ اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگ اور بہت سے پیجز شہباز شریف کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ رہے ہیں جی ہاں وہ پیپلز پارٹی جس نے دنیا کی تاریخ کے سب سے متعصب شخص ذوالفقار مرزا کو کئی سال ایک اہم وزارت کی ذمہ داری سونپی رکھی جس کے بھوکے ننگے والے بیان جس نے اردو بولنے والوں (مہاجروں) کے دل چھلنی کردیے، اس پر اس وزیر کی باز پرس تو دور کھل کر مذمت تک نہ کی ، وہ ذوالفقار مرزا جو کھلے عام کہتا پھرتا تھا کہ میں نے ڈیڑھ لاکھ اسلحہ لائسنس شادیوں میں فائرنگ کرنے کے لئے نہیں بانٹے آج وہ پیپلز پارٹی اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تو مجھے ہنسی آرہی ہے ۔

اب بات آجاتی ہے پی ٹی آئی والوں کی تو بھیا بہت پرانی بات نہیں ہے یہ جب عمران خان نے مہاجر ووٹرز کو زندہ لاشیں کہہ کر ایسی تذلیل کی تھی کہ آج ان کو کراچی میں بہترین اور مہنگے ترین فنکاروں کے ساتھ جلسہ کرنے باوجود بھی کراچی کی عوام ان کے جلسوں رخ نہیں کرتی اور آر سی ڈی گراؤنڈ کے جلسے سے ناراض ہوکر بناخطاب کیے ہی جانا پڑتا ہے لیکن مجال ہو کسی تحریکِ انصاف کے کارکن کی جس نے عمران خان کے اس بیان پر کبھی کوئی ٹویٹ کیا ہو اور اب جب شہباز شریف کے اس معمولی بیان پر پی ٹی آئی کے سابق ممبران اسمبلی اور تنظیمی عہدیدار بڑھ چھڑھ کر ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو اس منافقت پر حیرت ہی ہو رہی ہے۔

اب تم خود ہی سمجھ سکتے ہو سوشل میڈیا کے کے اس طوفان کے پیچھے صرف الیکشن گردی ہے اور کچھ نہیں !دوست نے جواب دیا ٹھیک ہے بھائی سمجھ گیا اور اتنے میں ہم کرانچی کی شان پٹھان کے چائے ہوٹل پر پہنچ چکے تھے اور ہمارے دوست نے اپنے لئے فوراً چائے کی آواز لگا دی ۔

اپنی تحریر کے آخر میں لاہور کو رونق بخشنے والے میاں شہباز شریف کو ایک بالکل مفت مشورہ دینا چاہوں گا اور وہ یہ کہ ’’میاں صاحب !یہ کراچی ہے جس نے عمر شریف اور انور مقصود جیسے نامور مزاحیہ فنکاروں کو جنم دیا ہے ،یہاں سستی کامیڈی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے اور الیکشن مہم کے دوران تو ہر گز نہیں، لہذا! ذرا سنبھل کہ ۔۔۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں