The news is by your side.

طلباءیونینز کی بحالی‘ وقت کی اہم ضرورت

کراچی میں عیدالاضحیٰ کے پہلے روز 2 ستمبر کو سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن پر قاتلانہ حملے کا واقع پیش آیا جس میں ایک 12 سالہ بچہ اور ایک گارڈ جاں بحق اور 4 افراد زخمی ہوئے۔

 پولیس اور انسدادِ دہشت گردی کے ادارے کی جانب سے بروقت تحقیقات کے نتیجے میں حملے کے سارے تانے بانے عیاں ہوگئے اور دہشت گردی کا انتہائی اہم نیٹ ورک آشکار ہوا اور سیکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائیاں کرتے ہوئے اہم گرفتاریاں کی۔

خواجہ اظہار پر حملے کی زمہ داری انصارالشریعہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کی گئی۔ اظہار صاحب پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ سعودآباد , عزیزآباد میں پولیس پر حملے میں بھی استعمال کیا جاچکاہے۔

خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والا حملہ آور حسان ابن نذیر کے حوالے سے انکشاف سامنے آیا ہے کہ وہ ڈاو ٔیونیورسٹی میں لیب ٹیکنیشن اور این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم رہ چکا تھا۔اظہارالحسن پر قاتلانہ حملے میں ملوث حسان کا قریبی ساتھی ‘ جسے حملے کا ماسٹر مائنڈ اور اہم کمانڈر کہا جارہا ہے عبدالکریم سروش جامعہ کراچی میں اپلائڈ فزکس کا طالب علم ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سروش صدیقی کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا مگر گرفتاری عمل میں نہ آسکی مگر آپریشن کے نتیجے میں سروش کے والد سجاد صدیقی کو گرفتار کرلیا گیاہے‘ اس کے اعلاوہ انصارلشریعہ تنظیم کے ترجمان اور سربراہ کو بھی قانون.نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے حراست میں لے لیا گیاہے۔

تعلیمی درسگاہوں سے وابستہ طلباء کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا یہ پہلا واقع نہیں اس سے قبل سعد عزیز جوکہ آئی بی اے کا طالب علم تھا ‘وہ سماجی کارکن سبین محمود اور سانحہ صفورہ گوٹھ اسماعیلی کمیومٹی کی بس پر فائرنگ میں ملوث پایا گیا۔ اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم جمعیت کے اہم ذمہ داروں کے کمروں سے دہشت گردوں کی گرفتاری عمل میں آنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں نورین لغاری جوکہ حیدرآباد میں لیاقت یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس کی طالبہ دہشت گرد تنظیم داعش سے متاثر ہوکر دہشت گردی کی غرض سے لاہور جا پہنچی تھی ‘جسے بعد ازاں لاہور سے حراست میں لیا گیا اور اب ایک بار پھر سے تعلیمی اداروں سے وابستہ طلباء کے حوالے سے خبریں گردش کررہی ہیں۔

پاکستان میں تعلیمی اداروں میں دہشت گردوں کی پھیلتی ہوئی جڑیں یہ سوال اٹھانے پر مجبور کررہی ہیں کہ ہم کئی سالوں سے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں مصروف ہیں مگر اس سے ہمیں فائدہ ملنے کےبجائے نقصان کیوں اٹھانا پڑرہا ہے؟ پہلے ایک تاثر پایا جاتا تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے برین واشنگ سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو جدید طرزِ تعلیم سے محروم ہوتے ہیں۔

مگر چند سالوں سے جس طرح سے جدید طرزِتعلیم کی درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے واقعات سامنے آئے ہیں‘ اِس کے بعد طلباتنظیموں کی بحالی ایک واحد حل ہے جس کے ذریعے ہم تعلیمی اداروں میں طلباء کو انتہا پسندوں اورشدت پسندوں کے نرغے میں جانے سے بچاسکتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ 30 سالوں سے طلباء یونینز پر ہابندی عائد ہے مگر کئی جمہوری حکومتیں آئی اورچلی گئیں مگر کسی کی جانب سے اس پر کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنے دورِاقتدار میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث کرتے پایا گیا مگر طلباء یونینز کی بحالی کے حوالے سے پیش کیے جانے والی قراردادوں پر کبھی عملی مظاہرہ نہیں کیا گیا۔

اگر پاکستان میں طلباء یونینز کو بحال کردیا جاتا ہے تو طالب علموں کو منفی سرگرمیوں سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے. پاکستان ایک انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے جہاں ہم دنیا کو دہشت گردوں کےخلاف کاروائی کا یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں ‘ وہی دوسری جانب نوجوان طلباوطالبات کا دہشت گردی انہتاپسندی میں ملوث ہونا ایک تشویش ناک بات ہے اگر اب بھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے حوالے سے جو تاثر پایا جارہا ہے اسے مزید تقویت ملے گی۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں