The news is by your side.

سب اچھا ہے: سیاست دان لفاظی کی سیڑھی اتر رہے ہیں

قارئین گرامی جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو حالیہ حکومت ماضی کے حوالے سے صرف بیانات کی حد تک اپنی کامیابی کا اہم پراپیگنڈہ اور وقت کا ضیاع کرتے ہوئے گھر جاچکی ہے۔قارئین (ن) لیگ کی حکومت پاکستان کی واحد حکومت تھی، جہاں چار سال تک کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا اور سابق وزیراعظم متحرک شخصیت کی طرح مفلوک الحال قوم کو چھوڑ کر دن رات دورے کررہے تھے، اس کا ثمر قوم کو تو نہیں ملا ہاں میاں صاحب کو ضرور ملا اور وہ کس طرح ملا یہ قوم دیکھ رہی ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی نے تو2014ءمیں ہی بھارتی قوم کو پیغام دے دیا تھا کہ ہم پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا مگر بھرپور نہ کرسکے کہ یہاں کی ”خلائی مخلوق“ بہت دلیر اور ثابت قدم ہے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ قوم اس ”مخلوق“ پر دل و جان سے نثار، جب اس ”خلائی مخلوق“ کی بات ہوتی ہے تو پھر کراچی سے لے کر خیبر تک قوم سیاسی بساط کولپیٹ دیتی ہے اور یہی کامیابی اس ملک کو تمام دنیاوی اور لادینی آفات سے محفوظ رکھتی ہے۔

مزے کی بات دیکھیں اقتدار بھی ان کا، وزیر بھی ان کے، وزیراعلیٰ بھی ان کا، چاروں گورنر ان کے پھر اعتراضات بھی ان کے جبکہ ان کی طرف سے قوم کو یہ اعزاز ملا کہ خزانوں کا کرتا دھرتا ملکی خزانہ لپیٹ کر چلتا بنا اور اب کہہ رہا ہے کہ بیمار ہوں، پاکستان نہیں آسکتا اور پھر ملک میں اعلیٰ ترقی وحکومتی کارناموں کی یہ سیاسی لوگ بھونڈی غزلیں قوم کو سنا رہے ہیں۔

1990ءسے لے کر2018ءتک ملک کے اعلیٰ ترین کرتا دھرتا کشکول سنبھالے بھیک کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں کیونکہ جانے والی حکومت ملکی خزانے میں قوم کے لئے صرف انتشار کی سیاست چھوڑ جاتی ہے تاکہ آنے والے واویلا مچاتے رہیں۔ ہم نے تو مستقبل کے لئے مفادات کا تحفظ کرلیا ہے اور جو نئے آتے ہیں وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے جبکہ آنے والے برسرِ اقتدار اور جانے والے اپوزیشن میں دونوں کو پروٹوکول، میڈیکل، اعلیٰ گھر، لمبی گاڑیاں، خوبصورت پاکستانی پرچم، ہزاروں پولیس اہلکار غرض وحشیانہ سہولتیں ان کی برقرار رہتی ہے جبکہ قوم وہی مفلسی کا کشکول لے کر اپنی قسمت کی دھجیاں بکھرتی ہوئی دیکھتی ہے۔

یہ سیاست دان صرف قوم کو تسلی کا مرہم رکھتے ہوئے چھوٹے دورانیے کی فلمیں دکھاتے ہیں مگر اب سوشل میڈیا نے ان کے بھرکس نکال دیئے ہیں، آج کل ن لیگ نے ایک نیا ایشو درخشندہ ستارے کی طرح روشن کر رکھا ہے، میاں صاحب کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔ لیجئے جناب جنہوں نے ووٹ کو عزت دی تھی2013ءمیں اور اب2018ءہے یعنی کے5 سال ہونے کو ہیں، وہ اب تک پینے کے صاف پانی، سیوریج کے بہتر نظام کے منتظر، صفائی، صحت، تعلیم اور روزگار، نامعلوم دہشت گردی سمیت ہزاروں مسائل آج بھی ان کے دامن میں بدنما داغ کی طرح ہیں۔ شاید وہ 2018ءسے لے کر2023ءکے لئے ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہے ہیں، اب تو ووٹر کی مرضی ہے کہ وہ ووٹ کو کتنی عزت دیتا ہے۔

میاں صاحب نے لوڈشیڈنگ کے لئے قوم سے کہا تھا کہ تین ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے اور وہ خود اس کا شکار ہوگئے کہ کورٹ میں جب ان کی پیشی تھی تو وہ بھی لوڈشیڈنگ کا شکار ہوگئے اور ان کو اپنے کہے ہوئے شرمناک مکالمے کا سامنا کرنا پڑا۔ ادھر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دعوؤں کی کیلیں جو زنگ آلود ہوگئی ہیں، انہیں نکالنے کی کوششیں کرتے پھررہے ہیں۔

حالیہ ہر وفاقی وزیر ریسرچ اور تحقیق کے بغیر اپنی پانچ سالہ کارکردگی کو قابلِ ستائش بتارہے ہیں کہ اسے2023ءکے لئے اپنی گاڑی پر جھنڈا چاہیے۔ وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ہم نے لوڈشیڈنگ کو ختم کردیا ہے۔ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ریلوے کی مکمل بحالی کے لئے10 سے12 سال درکار ہیں۔

ٓآپ کے پاس5 سال تھے، پانچ ماہ نہیں تھے۔ اب لوگ سوشل میڈیا میں کارکردگی کے چراغ کو جلتا ہوا اکثر دیکھتے ہیں اور دیکھنے کے بعد ان سیاست دانوں کے کرتوتوں پر افسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر ن لیگ حکومت کو میڈیا سے بہت شکایت ہے، من پسند اخبارات کو حکومتی اشتہارات دئیے جاتے ہیں اور جو اخبار ان کی حکومت پر اصلاحی تنقید کرتا ہے وہ حکومتی اشتہارات سے محروم رہتا ہے اور ایسے بھی اخبارات ہیں جن کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہ حکومتی گیت گاتے ہیں اور پھر اشتہار کے بھی حق دار کہلاتے ہیں مگر جو اخبار ایمان افروز اور قلم کی حرمت کے پاسدار ہیں، وہی اخبار آج معاشی طور پر قتل ہورہے ہیں، اس لئے کہ انہیں اشتہار کی ضرورت نہیں وہ اپنے قاری کو خبر دیتے ہیں۔

ادھر وزیراعظم کہتے ہیں کہ عدلیہ، نیب اور میڈیا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں ملک ترقی کیسے کرے گا، جناب وزیراعظم صاحب بزرگوں نے کہا تھا کہ پہلے تولو پھر بولو۔ عدلیہ آپ کے سابق وزیراعظم سے حساب مانگ رہی ہے، نیب آپ کے ممبرانِ اسمبلی کو کرپشن کے حوالے سے بلارہی ہے تو اگر ان اراکین کو ووٹ نے عزت دی تھی تو یہ بھی ووٹر کو عزت دیتے۔ دنیا کا میڈیا ملک کے کرپشن پر حیرت زدہ ہے اور ہمارے سیاست دان ”منا بھائی“ بن کر اپنی ایمانداری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر آپ سچے ہیں تو میڈیا سے سوال کیوں نہیں کرتے۔

آج کل ایک نئی بحث نے سر اٹھالیا ہے کہ مشرف ڈر کر بھاگ گئے، میاں صاحب بھی کہتے ہیں کہ وہ آئیں پاکستان اور عدالتوں کا سامنا کریں، ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں مشرف کو اکثر یہ کہہ کر پکارتی رہتی ہیں، آرٹیکل 6 کے تحت ان پر مقدمہ ہے۔ قوم کا ایک سوال ہے جو راقم سے اکثر لوگ کرتے ہیں کہ مشرف پر جمہوریت کو ختم کرنے پر مقدمہ کیا گیا مگر ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں یہ نہیں بتاتیں کہ انہیں جمہوریت ختم کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔

یہ سیاست دان کبھی اس طیارے کا حوالہ بھی دیں جس میں پاک آرمی کے چیف اور200 بچے سفر کررہے تھے، اس جہاز کو کیوں نہیں اترنے دیا گیا۔ کبھی اس سوال کا بھی تو یہ سیاسی حضرات جواب دیں پھر یہ ملکی سرحدوں کے شہہ سواروں کو کبھی ”خلائی مخلوق“ کہتے ہیں، کوئی کہتا ہے اداروں کو اپنی حد میں رہنا چاہیے مگر جب ان سیاسی حضرات کی جمہوریت کو خطرہ ہوتا ہے یعنی ملک میں سیلاب، زلزلے، بارشیں سازشیں ہوتی ہیں، تو یہ نظریہ ضرورت کے تحت انہیں بلاتے ہیں جبکہ ان کاموں کے لئے بے شمار پروٹوکول کے تحت منہ چڑھے شہزادے موجود ہیں تو پھر ”خلائی مخلوق“ کو مصیبت کے وقت بلانے کی کیا ضرورت ہے، ویسے تو ”خلائی مخلوق“ کا تذکرہ یہ سیاسی لوگ بہت کرتے ہیں اور جب الیکشن قریب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یہ سیاسی لوگ کہ ”خلائی مخلوق“ کی نگرانی میں الیکشن کرائے جائیں، اس سے بڑا اور کیا اعترافِ کمال ہوگا، کیا خوب ان شہہ سواروں کے لئے شاعر نے کہا اور خوب کہا ہے۔۔۔

مجھے اونچائیوں پر دیکھ کر حیران ہیں بہت لوگ
لیکن کسی نے میرے پیروں کے چھالے نہیں دیکھے

اور مزے کی بات دیکھیں کہ نیا پاکستان بنانے والے پرانے مستریوں نے اپنی عزت و توقیر، پروٹوکول کے لئے ادھر ادھر بھاگنا شروع کردیا ہے، یہ عوام کو اور سوشل میڈیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔اب سب سیاسی حضرات نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ لنگوٹ کس کر میدان میں اترے ہیں کہ الیکشن قریب ہیں، کوئی بدحال شیر کو عوامی خواہشات کو نظر انداز کرکے گوشت کھلارہا ہے، کوئی تیر کمان میں لگارہا ہے، کوئی پتنگ آسمان کی وسعتوں میں اڑانا چاہتا ہے، کوئی ترازو کو ایمانداری کا حصہ بنانا چاہتا ہے اور جس کو موقع نہیں ملا وہ بلے سے ہر گیند پر چھکے لگانا چاہتا ہے۔

شاعر حبیب جالب نے بھی کیا خوب کہا تھا۔۔۔

اٹھا رہا ہے جو فتنے میری زمینوں میں
وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستنوں میں


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں