نور الدین زنگی نے مصر کے سرحدی علاقے پر موجود فرنگیوں کے قلعے پر جب فوج کشی کا ارادہ کیا تو صلاح الدین ایوبی کو اپنی فوج سمیت پہنچنے کا حکم دیا۔ پہلے تو صلاح الدین اس بات پر آمادہ ہوگیا لیکن کچھ بےعقل ساتھیوں نے صلاح الدین کو اس بات پر قائل کرلیا کہ اگر بیچ میں سے یعنی مصر کی سرحدسے قلعہ ہٹ جاتا ہے تو نورالدین زنگی کیلئے مصر پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔صلاح الدین کویہ بات معقول معلوم ہوئی اور اس نے نور الدین کو یہ پیغام بھیج دیا کہ مصر کے اندرونی خلفشار کے سبب وہ قلعہ کرک نہیں آسکے گا۔ نورالدین اس عذر سے مطمئن نہ ہوا اور خود مصر کی فوج کشی کا ارادہ کیا۔
یہ خبر جب صلاح الدین کو ملی تو اس نے اپنے لوگوں سے مشورہ کیا۔ جس پر اس کے نوجوان بھتیجے تقی الدین نے کہا کہ ہم سلطان کےخلاف لڑیں گے۔ صلاح الدین کے والد نجم الدین نے اُسے ڈانٹ کر چپ کرایااور کہا مجھ سے اور تیرے ماموں شہاب الدین سے زیادہ تیرا خیرخواہ کون ہوسکتا ہے لیکن سلطان نے اگر ہمیں تیری گردن مارنے کاحکم دیا تو ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ پھر تمام مشیروں اور امراء کے چلے جانے کے بعد نجم الدین نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنے خیالات کا لوگوں کے سامنے اظہار مت کیاکرو۔ مجھ سمیت ان میں سے کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ سلطان کے سامنے زمین بوس نہ ہوسکیں۔
یہ تاریخِ اسلامی کا عجب واقعہ ہے۔ صلاح الدین ایوبی جیسے مدبر آدمی کے گرد بھی ایک ٹولا ایسا موجود تھا جو اُسے حماقتوں پر اکسانے اور اُسے قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔لیکن ایسے میں اس کے باپ کا تجربہ اور سلطان کی اطاعت دوایسی چیزیں تھیں جنہوں نے اس کو کسی قسم کی بےوقوفی سے باز رکھا۔ طاقت چیز ہی ایسی ہوتی ہے۔ اپنے گرد خوشامدیوں، موقع پرستوں اور مداریوں کی بھیڑ لگا دیتی ہے۔ اور ان میں ناجانے کیسا طلسم ہوتا ہے جوعقل کی آنکھیں چُندھیا دیتے ہیں۔
اب اس سے ہی اندازی لگا لیجئے صلاح الدین جیسا شخص شیشے میں اُتارا جاسکتا ہے تو ہمارے لیڈران اس سطح کا تدبر کہاں رکھتے ہیں۔تدبر ایک طرف رکھیے، انہیں تو پسند ہی یہ ہے کہ ان کے ارد گرد خوشامدی اکٹھے رہیں۔ دربار لگے اور مسخرے بادشاہ سلامت کو خوش کریں۔ مشیر مشورے عقل کے تقاضوں کو خاطر میں لاتے ہوئے نہیں بلکہ ان کی ذاتی اناء کی تسکین کو دیکھتے ہوئےکریں۔ پاکستان کی سیاست اس پرلے درجے پر پہنچی ہی لئے ہے۔
میں کسی مخصوص جماعت کی بات نہیں کررہا تقریباً سب کا ہی یہ حال ہے۔ سب اخلاقیات کے بجائے مفادات کی سیاست میں لگ گئے ہیں۔ جوجماعتیں کسی اخلاقیات پر کھڑی ہوئی دِکھتی تھیں پچھلے دنوں وہ بھی کھُلے عام اخلاقیات کے پرخچے اڑاتی دِکھائی دیں۔ 2013 میں نئی ٹیم کے ساتھ تقریباً 80 لاکھ ووٹ لینے والی پی ٹی آئی ،عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کیلئے اتنی بے قرار ہے کہ الیکٹیبلز کا بہانہ بنا ہر ذی روح کو پارٹی میں شامل کررہی ہے۔
دوسری جانب ٹوٹی پھوٹی ہی صحیح لیکن اخلاقیات کی حدود کی پابندی کرنے والی جماعتِ اسلامی سینیٹ میں ایک ایسی پارٹی کو ووٹ ڈال دیتی ہے جس کے قیادت کرنے والے خاندان کا کم و بیش ہر فرد مالی بدعنوانی کا کیس بھگت رہا ہے۔ جن کے بیٹے بھی مفرور قرار دیئے جاچکے ہیں اور سمدھی بھی بھگوڑے کہلائے جارہے ہیں۔ اس سب میں جماعتِ اسلامی کی جانب سے وجہ بڑی کمال کی بتائی جا رہی ہے اور وہ ہے معاہدے کی پاسداری۔ شاید یہ بھی خوشامد کا ایک نیا انداز ہو۔
قصہ مختصر مجھے تو آئندہ انتخابات میں کوئی بھی اخلاقی اقدار سے آراستہ نہیں دِکھائی دے رہا۔ میں ان سیاست دانوں کی کیا بات کروں جب عوام ہی اپنے لیڈران کا حساب لینے پر نالاں ہوں اور ایک لمحے کو بھی یہ سوال ذہن میں نہ آتا ہو کہ واقعی اتنی جائیدادیں بن کیسے گئیں تو کیا صادق اور امین حکمرانوں کا رونا ہم روئیں کیوں۔بہرکیف، خوشامدوں کا موسم ہے۔ دربار لگنے والا ہے اور سیاست دان رعایا کو شیشے میں اتار کر انہیں بےوقوف بنا کر ان کی گردن مارنے والے ہیں۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں