حضرت سہل بن عبداللہ تستری ؒ کے متعلق بیان آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے نفس نے خواہش ظاہر کی کہ اگر وہ اُسے مچھلی روٹی کھلا دیں تو مکّہ تک کچھ نہیں مانگے گا۔ چناچہ آپ نے دیکھا کہ ایک اونٹ چکی سے بندھا ہوا چکی چلا رہا ہے۔ آپؒ نے چکی کے مالک سے پوچھا کہ دن بھر کی محنت کے بعد تم اونٹ کو کیا دیتے ہو؟ اس نے کہا وہ دو دیناردیتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا اس کو کھول کر مجھے باندھ دو اوردن بھر کام کرنے کے بعد دو کے بجائے ایک دینار دے دینا اور جب شام کو ایک دینار مل گیا تو آپ نے مچھلی روٹی کھا کر نفس سے کہا کہ جس وقت بھی تو مجھ سے کسی چیز کی فرمائش کرے گا تو تجھے اسی طرح محنت کر کے کرنی پڑے گی۔
کھانا پینا ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن جنابِ حضرت کا اس ضرورت پر بھی اس قدر سخت رویہ واقعی تعجب سے خالی نہیں ۔ اچھا کھانے کی کہیں بھی ممانعت نہیں لیکن اپنے نفس کو اس چیز پر قابو کرلینا کہ پیٹ صرف زندہ رہنے کیلئے بھرنا ہے مطلب کھانا صرف اس لیے ہے اور صرف اتنا ہے کہ زندہ رہے جاسکے ضرور اپنے اندر متعدد روحانی امراض کا علاج رکھتا ہوگا۔
حضرت سہل کی روایت پر زرا غور کیا تو میں نے اِسے دو انداز میں سمجھا اور یہ مقام ِ استعجاب یوں ہواکہ دونوں کو ایک دوسرے کے برعکس پایا۔ ایک تفسیر تو یہ نکلی کہ نفس اگر کسی خواہش کا تقاضہ کرے تو اس واسطے محنت کر کے اس چیز سے تشفی کرلینا کوئی حرج کی بات نہیں۔ دوسر ی بات جو زیادہ غور کرنے پر واضح ہوئی اور حقیقتاً میرے نذدیک زیادہ اہم بھی ہے اگرچہ عملاً میں پہلی تفسیر پر کاربندہوں، وہ یہ کہ خواہش کی تکمیل میں نفس کو اتنا تھکا دیا جائے کہ بالآخر نفس اپنے تقاضے سے پیچھے ہٹ جائے۔ نفس کو قابو کرنے یہ طریقہ بہت ہی بہترین معلوم ہوا۔ کیوں کہ نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کیلئے محنت پر انحصار، انسان سے اس کا مقصد حیات چھین لیتا ہے اور اس کا قبلہ و کعبہ وہ خواہشات رہ جاتی ہیں جن کے حصول کے بعد صرف اس کی اپنی ذات کی تسکین یقینی بن سکتی ہے۔ وہ بھی وقتی، انتہائی قلیل مدت کیلئے ، پھر کوئی اور خواہش، پھر کوئی اور ، اور پھر کوئی اور۔
یہ چکر یونہی چلتا رہتاہےاور نفس کی مثال اس دہکتے الاؤ کی سی ہوتی ہے جس کی ہر خواہش کا پورا ہونا اس الاو میں ڈلنے والے ایندھن کا کام کرتی ہے اور یہ الاو درحقیقت انسان کے ذہن کا وہ خناس ہوتا ہے جو اِسے اس دھوکے میں ڈالے رکھتا ہے کہ اس میں سب کو جلا کر راکھ کردینے کی قوت ہے جبکہ وہ خود کو ہی حل من مزید کی آگ میں جھلسا رہا ہوتا ہے۔ گویا نفس کی مسلسل جھولی بھرنا ، انسان کا خود کو متکبر بنانے کے مترادف ہے۔
بات زیادہ مشکل نہیں سادی سی ہے، لا شعور میں انسان کی متکبرانہ روش اُس ہی وقت پنپتی ہے جب اس کی خشک مگر زندہ جڑوں کو نفس کی خواہشات کا پانی مسلسل ملتا رہتا ہے۔ اس کی واضح مثال پاؤں تلے رندنے والا جوتا ہے، چاہے کتنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو اُسے سر پر نہیں رکھا جا سکتا اور یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ اس کا مقدر زمین پر رندنا ہے، آرائش کے تمام پہلوؤں کو پورا کرنا یہی بات عیاں کرتا ہے کہ جناب کا جسم پر موجود دیگر اشیا ئے ضرورت کی آرائش سے متعلق کیا معاملہ ہوگا۔