بیماری کسی بھی نوعیت کی ہو ہمیں خدا تعالیٰ سے عافیت طلب کرنی چاہیئے لیکن شاید یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرۂ ارض پرموجود ہرشخص کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو طبعی طور پر بیمار ہوں، کچھ ذہنی بیماری کے چنگل میں ہوں اور جو بچیں وہ روحانی طور پر بیمار ہوں۔ ممکن ہے اس زمین پر ایسے لوگ بھی ہوں جو تینوں طرح کی بیماریوں سے محفوظ ہوں۔ لیکن میرے مرکزِ نگاہ وہی افرادہیں جو بیمار ہیں (بشمول میرے)۔
ان تینوں اقسام کی بیماریوں میں سب سے آسان طبعی بیماری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی تشخیص اور علاج ومعالجے کے امکان بآسانی معلوم ہوجاتے ہیں۔ لیکن ذہنی اور روحانی بیماریاں کچھ ایسی نوعیت کی ہوتی ہیں جس میں انسان خود میں کوئی غیر معمولی چیز محسوس ہی نہیں کر پاتا۔ وہ غیر معمولی اثرات اس شخص کے اطراف کے لوگ واضح کرتے ہیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان کے بس سے باہر کی بات ہو تو کم از کم خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا بھرمیں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار
عین ممکن ہے کہ یہ غیر معمولی روش معمولی لگنے لگے تو بات صاف ہےکہ وہ ‘اطراف’ بھی ذہنی یا روحانی مرض کا شکار ہے جسے اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کسی چیز کو صرف برا کہنا ہی نہیں بلکہ اسے ترک بھی کرنا ہے۔ محفلوں میں ، لوگوں کے درمیان صحیح غلط، اچھا برا، جائز ناجائز کی بڑی بڑی باتیں کرکے نامناسب چیزوں کو یا کہیے متضاد چیزوں کو مجبوری کے نام پر زندگی کا حصہ بنانا بیماری کی عین علامت ہے۔مقصود محض غلط کو غلط کہنا ہی نہیں بلکہ عملاً خود کو غلط سے روکنا بھی ہے۔
بیمار معاشرے کا، فرد کی بیماری کو پہچاننا ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ معاشرے کے لئے فرد کی نقل و حرکت تو معمول کے مطابق ہوتی ہے۔مگر جیسے ہی کوئی ذہنی صحت مند شخص اس معاشرے میں آتا ہےتومعاشرے میں بسنے والوں کو اس کی ہر ادا غیر معمولی لگنے لگ جاتی ہے۔
یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں یہ بات ثبت ہو جاتی ہے کہ آیا یہ مذکورہ معاشرہ محض روحانی بیمارہے یا یہ ذہنی بیماری کی اذیت سے بھی گزر رہا ہے۔ ظاہر ہے خود پسندی اتنی آسانی سے اس معاشرے کو یہ کیسے قبول کرنے دے گی کہ یہ ذہنی اور روحانی طور پر بیمار ہے۔
کیوں کہ بے شک اس معاشرے کا ہر فرد کہتا تو ہے کہ حق تلفی، دھوکا دہی، مکر و فریب وغیرہ وغیرہ غیر اخلاقی چیزیں ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان سب چیزوں کو مجبوری کی دلیل لگا کر اپنے لئے جائز بنا بیٹھے ہیں۔ یہ ہی تو خود پسندی ہے جو ذہنی بیماری ہے اور یہ ہی تو تکبر ہے جو دیگر لفظوں میں روحانی بیماری ہے۔