The news is by your side.

بے شک! پاک فوج اللہ کی مخلوق ہے

ملک بھر میں افواہوں اور غیر یقینی کی کیفیت کےتدارک کے علاوہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کی بیچ محبت اور اعتبار کے رشتے کو مزید استوار کرتے ہوئے ان کے مابین باہمی ربط کو قائم رکھنے کی کھٹن ترین ذمہ داری بھی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ پاک فوج کا وہ شعبہ ہے جو عوام اور میڈیا کی نظر میں نسبتاً زیادہ رہتا ہے کیونکہ اسی ادارے کے ذریعے افواج پاکستان سے متعلق خبریں اور معلومات بذریعہ میڈیا عوام تک پہنچتی ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے ہاں فوج الیکشن ڈیوٹیوں سے لے کر ڈیموں کی تعمیر کے لئے عطیات کی فراہمی تک ہر جگہ پائی جاتی ہے اس لئے جب بھی مختلف معاملات پر چہ مگوئیاں طول پکڑنے لگتی ہیں یا پھر پاک فوج سے متعلق کوئی فضول افواہیں گردش کرنے لگتی ہیں تو ایسے وقت میں پاک فوج کے اسی ادارے کے سربراہ کے لئے یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ وہ مختلف میڈیا کے نمائیندگان کو مدعو کر کے ان عمومی اہمیت کے حامل معاملات پر اپنا مؤقف پیش کریں۔ لہٰذا اس بار بھی ایسا ہی ہوا جب درج ذیل افواہیں محو گردش تھیں۔

ا۔ جن میں صف اول کی افواہ تھی کہ 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے انتخابات بروقت نہیں ہوں گے۔

ب۔ نواز خاندان کی سزا اور گرفتاری کے پس پردہ ملوث ہاتھ پاک فوج کا گردانا جا رہا تھا۔ جس کے پیش نظر اسے انہی مقتدر حلقوں کی جانب سے متعدد نازیبا عنوانات( مثلاً خلائی مخلوق) سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔

ج۔ پانی کےذخائر کی تعمیر کی غرض سے قائم کردہ فنڈ میں لوگ عدم اعتماد کی بنا پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس اہم ترین مسئلے کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرانا بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس سے مقصود تھا۔

د۔ قبل از انتخابات سیاسی انجنئیرنگ اور پارٹیوں کے اندر اکھاڑ پچھاڑ کی تمام تر ذمہ داری بھی پاک فوج کے کندھوں پر ڈالی جا رہی تھی جس کا تدارک بھی ناگزیر تھا۔

لہٰذاان تمام مذکورہ بالا عوامل کے پیش نظر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نےآج میڈیا نمائندگان کے سوالات کے جوابات دے کر تمام ابہام کے ممکنہ تدارک کے سعی کی۔ وہ کس قدر کامیاب ہوئے یہ تو آئندہ چند روز میں ہی معلوم ہو سکے گا۔ مگر انہوں نے باور کرایا کہ پاک فوج گزشتہ پندرہ برسوں سے ملکی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے ایسے میں ان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈے کو فروغ دے کر کچھ عناصر ان کی توجہ اس جنگ سے ہٹانا چاہتے ہیں جو کہ ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ نیز انہوں نے سماجی میڈیا پر سرگرم کچھ گروہوں کو بھی خبردار کیا کہ جن کی ہر حرکت پر بھی فوج نظر رکھے ہوئے ہے اور انہیں ہرگز کھلا نہیں چھوڑا جائے گا۔

ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق انہوں نے یقین دلایا کہ عام انتخابات اپنے طے شدہ وقت پر ہی ہوں گے۔ انہوں نے باور کیا کہ ان کی ہمدردیاں کسی بھی پارٹی کے ساتھ نہیں جو بھی حکومت بنائے گا اس کے مینڈیٹ کا پاک فوج مکمل احترام کرے گی اور دیگر پاکستانیوں کی طرح وہی فوج کے لیے بھی حکمران ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی اصلاح ان کے دائرہ کار سے یکسر باہر ہے لہٰذا اس کاگلہ پاک فوج سے نہیں کیا جائے۔

میجر جنرل آصف غفورنے قبل از انتخابات ملک میں ہونے والی پولیٹیکل انجنیئرنگ میں پاک فوج کے ملوث پائے جانے کا امکان بھی یکسر مسترد کر دیا۔ جس سے یقینی طور پر چند نام نہاد دانشوروں اور اینکر حضرات کی ان سب بلند بالا دعوؤں کی بھی قلعی کھل گئی جو کچھ مخصوص انتخابی نشانات ( جیپ) کے الاٹ منٹ کو پاک فوج سے نتھی کر کے ان پر انتخابات اور ملکی سیاست میں مداخلت کے الزامات عائد کر رہے تھے۔

خلائی مخلوق سے متعلق بھی سوال کیا گیا جس کے جواب میں جنرل آصف غفور نے کہا کہ،’ ہم خلائی مخلوق نہیں بلکہ رب ذوالجلال کی مخلوق ہیں ہم اپنی قوم کے محافظ ہیں’،ان کے اس جواب کو سماجی میڈیا ٹویٹر پر اتنی پذیرائی ملی کہ ہر کوئی اسے ری ٹویٹ کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں، ملکی خزانہ تقریباً خالی ہونے کے باعث پانی کے ذخائر کی فی الفور تعمیر کے لئے عوام اور مخیر حضرات سے عطیات کی اپیل بھی جنرل آصف غفور کی جانب سے کی گئی اور اس کے لئے پاک فوج کے جوانوں و افسران کی ایک ایک دن اور سپاہ سالار جنرل باجوہ کی ایک ماہ کی تنخواہ ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں پہلے سیاسی حکومتوں پر اعتماد کے فقدان کی وجہ سے ڈیم فنڈ میں کوئی بھی پیسے نہیں دے رہا تھا وہاں پاک فوج کے سامنے آنے کی وجہ سے فوراً فنڈ میں جمع رقوم 58 لاکھ روپے تک پہنچ گئیں۔ اور یوں پاک فوج ایک بار پھر ہم سب پہ سبقت لے گئی اور اپنے عمل و کرادر سے انہوں نےثابت کر دیا کہ وہ کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ اسی سیارے کی مخلوق ہیں جن کے دلوں میں اپنے ہم وطنوں کے درد کا احساس پایا جاتا ہے۔

المختصر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس ایک جامع اور ٹو دی پوائنٹ ٹاک تھی جس کے نتیجے میں قوی امید کی جا رہی ہے کہ پاک فوج سے نتھی کئے گئے تمام تر شکوک و شبہات اور چہ مگوئیاں ممکنہ حد تک دم توڑ دیں گی۔ مگر ابھی بھی بعض ایسے حلقے موجود ہیں جن کی ایجنڈا سیٹنگ شاید کہیں اور سے کی جاتی ہے اور جن کی ترجیحات میں ملکی مفاد کا شاید آخری نمبر بھی نہیں ہے وہ تا حال بے پرکی اڑانے میں مگن دکھائی دے رہے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں