The news is by your side.

دھماکوں کے وقت آئی ایس آئی کہاں ہوتی ہے؟

جمہوریت نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ اس سے قطع نظر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب پاکستان جمہوریت کی پٹری پر زورو شور سے گامزن ہو چکا ہے اور مسلسل تیسری بار اپنی اسمبلیوں کے اراکین کے انتخابات کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ جہاں یہ ہر پاکستانی کے لئے پر مسرت موقع ہے وہیں پاکستان دشمنوں کے لئے باعث تکلیف بھی ہے۔ اور شاید یہی تکلیف ان کی نیندیں بھی حرام کئے ہوئے ہے اور وہ قبل از انتخابات پاکستان میں افراتفری کو فروغ دینے کے لئے بر سر پیکار ہیں۔ جس کا منہ بولتا ثبوت بنوں، پشاور، مستونگ اور چمن میں ہونے والے حالیہ خود کش اور بم دھماکے ہیں۔ اس لئے ہر پاکستانی بھی تذبذب کا شکار ہے کہ جن دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تھی اب وہ پھر سے کیسے اور کیونکر منظم ہو گئے ہیں؟ ہر کوئی حیران ہے کہ اچانک سے انتخابات سے قبل یہ کیا ہو رہا ہے؟اس کا جواب صرف دو نکات میں مضمر ہے۔

ا۔ دشمن کی دھماکوں کے لئے کی جانے والی ‘ ٹارگٹ سلیکشن’ مطلب وہ علاقے جنہیں حالیہ’ تخریب کاری کا ہدف’ بنایا جا رہا ہے۔

ب۔ اور’ ٹائم سلیکشن’ مطلب نادیدہ قوتوں نے ان دھماکوں کے لئے ‘انتخابات سے قبل کا وقت’ متعین کیا ہے۔

اگردشمن کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ان کے متنخب شدہ علاقوں(بنوں، پشاور، مستونگ اور چمن) پر غور کیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حالیہ دھماکے افغانستان کے قریب تر یا پھر ملحقہ علاقوں میں ہو رہے ہیں۔ اور چونکہ تختِ کابل ایک طویل عرصے سے اپنے بھارتی آقاؤوں کے اثرو رسوخ کے زیر سایہ ہے، لہٰذا اس سے اس بیانیے کو قوی تقویت ملتی ہے کہ انتخابات سے قبل پاکستان میں یہ دھماکے بذریعہ افغانستان بھارت کروا رہا ہے۔ ایک وہی ہے جسے پاکستان کا امن و سکون کبھی ہضم نہیں ہوتا،نیز وہ جلتی پر تیل ڈالنے کا سنہری موقع بھی کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

مزید براں،پاکستان کے دشمن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ‘انتخابات کا وقت’ پاکستانیوں کے لئے نازک ترین وقت ہوتا ہے۔ اوراسی نازک وقت کا استعمال ماضی میں بھی ہمارا دہرینہ دشمن بھارت پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے بخوبی کر چکا ہے۔ لہٰذا وہ انتخابات سے جڑی پاکستانیوں کی کمزوریوں سے واقف ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم سیاسی بنیادوں پر’ شدید منقسم’ ہوتی ہے۔ کوئی شیر کا متوالا ہے تو کوئی بلے کا سپوٹر، کوئی تیر چلا رہا ہے تو کوئی کتاب پکڑے ہوئے ہے۔ غرض ہر کوئی اس وقت اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ ذات و برادری کا عنصر بھی اس سیاسی شورش میں کافی نمایاں ہے۔ اس لمحے نہیں ہے گر کوئی تو وہ صرف ‘پاکستانی’ نہیں ہے۔ الغرض، ہم سب ذات، برادری اور سایسی وابستگیوں کی بنیاد پر منقسم ہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ تحمل و برداشت کو پاکستانی قوم نے اس وقت طویل رخصت دے رکھی ہے۔ اور یہی وہ صورتحال ہے کہ جس کا فائدہ شاید ہمارا دیرینہ دشمن بھارت اٹھانا چاہ رہا ہے اور اس کی آڑ میں وہ ہمیں کوئی گہری چوٹ دینا چاہتا ہے۔ مگر الحمد اللہ! تاحال وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں اس طرح سے کامیاب نہیں ہو سکا جس کا وہ متوقع معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے قوی امکان ہے کہ وہ شاید آئندہ چند روز میں اے پی ایس اسکول طرز کا کوئی بڑا سانحہ پاکستان میں سپانسر کرے تاکہ 25 جولائی کو ہونے والےعام انتخابات کو بھی زک پہنچے اور انتخابات اپنی طے شدہ تاریخ سے ملتوی ہوں اور اس کی ذمہ داری بھی پاک فوج پر ڈال کر اس پر لعن طعن کا موقع حاصل کیا جاسکے اور یوں پاکستان کو خاکم بدھن انارکی کی جانب دھکیلا جائے۔

دشمن کی سازش تو بہت گہری ہے۔ مگر ابھی تک اسے منہ کی کھانی پڑ رہی ہے کیوں کہ پاکستان کے دفاع کے ضامن ادارے بشمول آئی ایس آئی اور افواج پاکستان ‘اندرون ملک’ یعنی شہری علاقوں میں دھماکوں کو قبل از وقت روک کردشمن کے عزائم کو خاک میں ملا رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ کل ہی خیبر ایجنسی طور خم باڈر پر افغانستان سے آنے والے دو اسلحے سے بھرے ٹرک سیکورٹی حکام کی جانب سے قبضے میں لئے گئے جو یقیناً آئندہ چند روز میں ملک دشمن عناصر کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں بروے کار لائے جانے تھے۔

مگر پھر بھی کچھ عناصر ہماری صفوں میں ایسے ہیں جن کا کام ہی ہر وقت ریاستی اداروں بالخصوص آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف بے پرکی اڑانا ہے۔ وہ دھماکوں کے فوراً بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں کہ ‘نمبر ون کہاں ہے، نمبر ون ہے تو روکا کیوں نہیں؟’۔ حالاں کہ جو ہزاروں کی تعداد وہ روکتے ہیں وہ انہیں دکھائی کیوں نہیں دیتے؟ کیونکہ وہ خبروں کی زینت نہیں بنتے۔’ نمبر ون’ یعنی آئی ایس آئی کا کام ہی صرف معلومات مہیا کرنا ہے ایکشن لینا تو پولیس کے ذمے ہے۔ نمبر ون تو تھریٹ جاری کرتی ہے مگر اس کا اثر کیا ہوتا ہے؟ دو چار روز کی اٹھک بیٹھک کے بعد سول انتظامیہ خواب غفلت کا شکار ہو جاتی ہے۔ اُدھر دشمن ٹوہ لگائے بیٹھا ہوتا ہے جیسے ہی سیکیورٹی لیول ‘لوز’ ( یعنی ڈھیلا) ہوتا ہے عین اسی لمحے گھات لگائے ہوئے ‘ٹیرر سلیپنگ سیلز’ جاگتے ہیں اور بلاسٹ ( دھماکہ) ہو جاتا ہے۔ اور نتیجتاً ہم سیخ پا ہوتے ہیں نمبر ون پر؟ آخر کیوں؟۔

آئی ایس آئی تو دشمن کے گھر کے عین صحن میں گھس کر بیٹھی ہے وہاں سے اپنی جان پر کھیل کر معلومات اکٹھی کرتی ہے۔ حتیٰ کی دیگر سیکورٹی ادارے مثلاً پولیس اور رینجرز اسی کی دی گئی معلومات کی روشنی میں آپریشن کرتے ہیں۔ یہ جو روازنہ خبروں میں آپ پڑھتے ہیں کہ فالاں جگہ چھاپہ مار کارروائی، اتنا بارودی مواد برآمد اتنے دہشت گرد مردار، ان دہشت گردوں کی لوکیشن اور ان کے خوفناک منصوبوں سے کیا آسمان سے فرشتے آکر آپ کو آگاہ کرتے ہیں ؟ نہیں جناب! یہ عظیم کام دنیا کی نمبر ون حساس ادارے کے گمنام سپاہی اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سر انجام دیتے ہیں اور ان میں سے کئی تو جام شہادت نوش بھی کر جاتے ہیں مگر ہمیں کانوں کان ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔

مگر’نمبر ون’ اس لئے بھی ‘نمبر ون’ ہے کیونکہ یہ اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے دوران کبھی بھی اخلاقیات کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔ کبھی معصوم اور عام افراد کو نا حق جنگ میں نہیں جھونکتی۔ ورنہ یہ اس کے لئے ہر گز محال نہیں کہ اس کے نہتے شہریوں کے لہو سے ہولی کھیلنے والے پاکستان دشمنوں کے آنگن دھماکوں سے گونج اٹھیں۔’ نمبر ون’ پر انگلیاں اٹھانے والے در اصل اس کے اصل کام سے واقف بھی نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو آئی ایس آئی کے اصل کام کا عشر عشیر بھی نہیں۔ دنیا بھر کی آٹھ کے قریب ٹاپ کلاس ایجنسیاں اس کو کاؤنٹر کرنے کی درپے ہیں اور یہ انہیں۔ آئی ایس آئی جن محاذوں پر پاکستان کے تحفظ کے لئے بر سر پیکار ہے ان میں اندورن ملک پراکسیز وارز، عالمی سازشیں، سی پیک اور چائینز انجینئرز کی حفاظت، کشمیر اور بلوچستان کا محاذ، قبائلی علاقوں میں چلتی گرم سیاستیں، افغانستان اور ایران میں اینٹی پاکستان سرگرمیوں کا تدراک، پاکستان دشمنوں کے پختونستان، جسقم اور گریٹر کشمیر کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے علاوہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا تحفط بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں، یہی آئی ایس آئی دنیا بھر کی ایجنسیوں کو اپنی انگلیوں پر نچواتی ہے اور راء ، موساد، ایم آئی سکس، سی آئی اے، افغان انٹیلیجنس اور ایرانی سیکرٹ سروس کے علاوہ پرائیویٹ کانٹرریکٹرز کو بھی کاؤنٹر کرتی ہے آپ کے نام نہاد دانشور یا سیاستدان نہیں۔

آئی ایس آئی کے گمنام سپاہی اعزازات، تمغوں اور بعد از شہادت اعزازی گارڈ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ کسی بھی طرح کے دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے سروس جوائن نہیں کرتے۔ یہ خالصتاً پا کستان کے لئے لڑتے ہیں پاکستان کے لئے جیتے ہیں اور پاکستان کے لئے ہی اپنے پیاروں سے دور، اپنے ملک سے کوسوں دور، تاریک راہوں پر مرکر امر ہو جاتے ہیں۔ اکثر تو ان کی قبریں بھی نہیں بنتیں، حتیٰ کہ نمازے جنازہ بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی کفن دفن۔ لہٰذا میری آپ سب سے صرف اتنی سی درخواست ہے جب بھی ملک میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو، براہ مہربانی ان پر اس کا ذمہ مت ڈالیئے۔ اپنے ان محسنوں پر لعن طعن مت کیجئے۔ یہ بھی کسی ماں کے لعل ہیں، کسی بہن کے بھائی ہیں۔ جو محض آپ سب کے امن و سکون کے لئے اپنے گھروں سے سالہا سال سے گھر بے گھر ہیں۔ یہ ہمارے اصل ہیروز ہیں ۔

صرف تصور کیجئے اگر یہ سیکرٹ سروسز میں اپنی اپنی زندگیاں رضا کارانہ طور پر پیش نہیں کرتے تو پھر ہمارا کیا ہو گا؟ کیا یہ کرائے کے چند نام نہاد دانشور اور سیاستدان اپنے اپنے بیٹوں کو ہمارے دفاع کے لئے قربان ہونے کو بھیجیں گے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو ثابت شدہ چور اور خائن ہونے کے باوجود جیلوں میں آسائشوں اور پرسکون زندگی کی عدم فراہمی کے خلاف ریاست سے روزانہ شکوے کر رہے ہیں۔ ملک کی بقا اور دفاع کے لئے قربان ہونے والا خمیر ان کا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا محض ان کے لئے اپنے محسنوں اور ان کے لواحقین کے دل مت دکھائیے جو اپنے ایک بیٹے کو قربان کرنے کے بعد ملکی دفاع کے لئے اپنے دوسرے بیٹے کو بھی پیش کر رہے ہیں۔

بلا شبہ ہمارا ملک اپنی تاریخ کی نازک ترین صورتحال سے گزر رہا ہے، جہاں درجنوں عالمی حساس ادارے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں سرگرم ہیں۔ اس وقت بس ہمیں یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ملک صرف آئی ایس آئی اور پاک فوج کا نہیں بلکہ ہمارا بھی ہے اس لئے اس کی حفاظت کے ضمن میں کچھ ذمہ داریاں ہماری بھی بنتی ہیں۔ لہٰذا اس وقت آپ سب بھی اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھ کر ایک فرض شناس پاکستانی ہونے کا ثبوت دیجیئے۔ اور یہ ضرور یاد رکھیئے کہ اگر یہ خائن اور وطن فروش سیاستدان نہ رہے تو ملک پھر بھی چل سکتا ہے مگر اگر یہ آئی ایس آئی یا پاک فوج نہ رہی تو خاکم بدہن ملک بھی نہیں رہے گا۔ لہٰذا ان کے خلاف آواز بلند کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں