The news is by your side.

نئے پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی

گزشتہ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی اور چار سال وزارت خارجہ کے منصب سے محروم مملکت اس حال کو پہنچ چکی تھی کہ عالمی تنہائی کے خدشات سراٹھانے لگے تھے، تاہم شاہد خاقان عباسی کے آخری آٹھ ماہ اور خواجہ آصف کی وزارت خارجہ کی بدولت عالمی دنیا میں پاکستان کے کیس کو کچھ پذیرائی ملی مگر دنیا ہماری طرف قدم بڑھانے کے بجائے انتخابات 2018پر نظریں لگائے بیٹھی تھی۔ جونہی انتخابات 2018کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ، عالمی دنیا نے اسے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔

ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ جس انتخابات کو پاکستان کی سیاسی جماعتیں مسترد کررہی تھیں اس کے نتیجے میں اکثریت پانے والی جماعت کے سربراہ کو دنیا خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ عمران خان کو ایران، چین، سعودی عرب،جاپان، ملائیشیا، ترکی،بھارت، قطر ، یو اے ای، امریکہ ، روس، فرانس، برطانیہ اور افغانستان نے اپنے سفیر بھیج کر مبارکباد پیش کی ، جبکہ سعودی فرمانرو اور ولی عہد تین دفعہ فون کرچکے ہیں، ایرانی اور ترک صدور نے بھی فون کے ذریعے پیغامات دیئے،یورپی یونین کے نمائندگان نے بھی عمران خان سے ملاقات کی۔

عمران خان کا ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کی جانب سے دورے کی دعوت قبول کرنا اور وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کا بعد سب سے پہلے ان پڑوس ممالک میں جانے کا اشارہ دینا، اور نئی حکومت کے پہلے مہمان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا بننا، پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ عمران خان برابری کا تعلق چاہتے ہیں اور برابری کی بنیاد پر تعلق کا مطلب غلامی نہیں ہے اور ڈومور کی بتی کے پیچھے نہ چلنے کا اعلان ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے سے امریکہ بہادر کی ناراضی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، چین کے اتحادیوں کے لئے بھی امریکہ کے سینٹرز اور پالیسی ساز مشکلات بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ہمارے مستقبل کے وزیرخزانہ کے دوٹوک موقف کہ امریکہ اپنی فکر کرے ، سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند دوستی میں دراڑ آئے گی نہ ہی اب ایران کی جانب دوستی اور دو طرفہ تجارت کی راہ میں کسی کو حائل ہونے دیں گے۔

افغانستان میں امن پاکستان کے وسیع ترین مفاد میں ہے، اگر ہم حالیہ دنوں کی بات کریں تو افغانستان کی کمزور حکومت اور نیٹو کے ہاتھ سے غزنی بھی نکل چکا ہے اور اب صرف کابل میں ایک کمزور ترین حکومت ہے، جبکہ افغانستان کے70فیصد علاقے پر طالبان قابض ہیں،امریکہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کیلئے پاکستان واحد سہارا ہے، گویا امریکہ ہمیں محتاج کرنے چلا تھا اور خود ہمارا ہی محتاج ہے اور اسے افغانستان سے محفوظ راستہ تبھی مل سکتا ہے جب وہ پاکستان کے خلاف عالمی پروپیگنڈا مشینیں بند کرکے دہشتگردی کے خلاف ہماری قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور اپنی ناکامی تسلیم کرے۔

ہمارے چوتھے پڑوس ملک بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے راستے بند ہوچکے ہیں، 2019بھارت میں انتخابات کا سال ہے، اس سال شاید بھارت کے ساتھ بات چیت ممکن نہ ہوسکے، کیونکہ مودی پھر پاکستان دشمنی کا کارڈ کھیلیں گے، مگر عمران خان کی جانب سے اپنی پہلی ہی تقریر میں کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعلان کیا گیا۔

شاید پہلے سال عمران خان کو خاطرخواہ کامیابیاں نہ مل سکیں مگر آئندہ آنے والے برسوں میں بھارت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے دروازے کھل جائیں گے۔مستقبل کے جو اشارے مل رہے ہیں، اس سے واضح ہورہا ہے کہ اب چین، ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ اب ایران،قطر، سری لنکا، ملائیشیا اور روس کے ساتھ تجارتی، سیاحتی، علاقائی اور دفاعی تعلقات مضبوط ہوں گے، آئندہ کچھ سالوں میں ممکنہ طور پر ہم اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر ممالک سے رجوع کریں گے۔ عرب ممالک اور یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدات ہوں گے، نئے پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی میں تعلقات ذات نہیں بلکہ مملکت کے وسیع تر مفاد میں قائم کیے جائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں