The news is by your side.

نکل کرخانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری

حسین اور حقانیت ایک ہی تصویر کے بالکل اسی طرح سے دو رخ ہیں اور انھیں آپس میں اسی طرح ربط حاصل ہے جس طرح رسالت اوراہلبیت ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ اگر خانوادہ رسالت میں دین اسلام کے تحفظ و سلامتی کی اہلیت نہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کبھی اپنی امت کے سامنے یہ نہ فرماتے

’’ کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن اور ایک میرے اہل بیت ، اور میں تم سے اس سے زیادہ اجر رسالت نہیں مانگتا ۔ ‘‘

امام حسین حضور اکرم کے سایہ عاطفت میں رہے ،نبی کامل ﷺ نے امام کے اپنی پشت پر سوار ہونے کے بعد اپنے سجدے کو طول دیا ، عیدین کے دن حسنین شریفین کی سواری بھی بنے اور یہ سب احکام الہیٰ کے سبب ہوا کیونکہ ہمارے نبی تو وہ نبی ہیں جن کے مبارک لبوں سے آج تک وحی الہیٰ کے سوا کچھ نہیں نکلا ۔

سو حسینی کردار ایک جانب نبی اکرم ﷺکے علم و حلم کا مرکز ہے تو دوسری طرف شیر خدا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بہادری کا عکس بھی ۔ایک جانب خاتون جنت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عصمت کا اظہار بھی ہے تو دوسری طرف امام حسن علیہ اسلام کی معاملہ فہمی کا عملی نمونہ بھی ۔

اگر یہ کہا جائے کہ ہر دور میں امام حسین اور کربلا کے پیغام کو سمجھنے والوں نے صرف اتنا ہی سمجھا ہے جتنا ان کی بساط اور دائرہ علم میں تھا تو یہ غلط نہ ہو گا، کسی کو امام حسین ظلم کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آئے تو کسی مظلومیت کے پیکر اور کسی کو محض پیاسوں کی پیاس نے ہی سیراب کر دیا ۔ کسی نے امام عالی مقام کی بہادری کو سلام پیش کیا تو کسی کو امام حسین کا دشمن کی فوج کو پانی پلانا متاثر کر گیا ۔ امام عالی مقام نے جنگ کا آٖغاز خود نہیں کیا بلکہ بار بار اسلام کی عظمت ، نبی کریم ﷺ کی دین کے لئے خدمات اور اپنی بے گناہی کا یقین دلایا لیکن جب دین اسلام پر آنچ آنے لگی تو امام نے بہادری اور شجاعت کا وہ منظر پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔

دیکھا جائے تو امام حسین کا پیغام آفاقیت پر مبنی ہے ، عالمگیریت کا مرکز ہے ، ایک ایسا عظیم نظام ہے جہاں کوئی بھی انسان پناہ لے سکتا ہے اور اس طریقہ کار کو اپنا کر اپنی زندگی کو سہل بنا سکتا ہے ۔امام ِ عالی مقام نے تو زندگی کو اس کی بھول بھلیوں سے نکال کر بے حد سادہ بنا دیا ، انھوں نے راہ خدا میں اپنے معصوم بچوں ، جوانوں اور پیرانہ سال ساتھیوں کی قربانی دےکر ثابت کیا کہ دین اسلام ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا مذہب ہے ، یہی دین فطرت اور محبت الہی ہے کہ امام حسین کے حرمِ مبارک کی خواتین بھی اپنی چادروں کی قربانی پیش کرنے سے پیچھے نہ رہیں ۔

دنیا میں آج ابتری اسی لئے ہے کہ ہم نے امام حسین کے اصل پیغام کو بھلا کر اسے صرف ذکر و اذکار تک ہی محدود کر دیا ، ہم نے مساجد اور خانقاہوں کو تو سجا دیا لیکن دل محبت الہی اور فکر کربلا سے خالی کر دئیے ۔ ہم نے کردار کی بجائے خالی خولی باتوں کو ہی اپنا شعار بنا لیا ، جس کی واضح مثال تو یہی ہے کہ آج ہمارے مظلوم بہن بھائی کشمیر ، افغانستان شام ، عراق ، یمن اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم سے ان مظالم کی مذمت بھی نہیں ہوتی ۔

ہم دل میں بھی اس ظلم کو برا نہیں سمجھتے اور اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہتے۔ خود ہی کہیے کیا یہ انداز کوفی و شامی نہیں ہے ؟ کیا یہ منافقت نہیں ہے اور بالکل اسی طرح کی منافقت اور دوغلا پن جیسا کہ امام عالی مقام کی شہادت سے قبل کوفہ و شام کے لوگوں نے خط لکھ کر کیا تھا ۔اور انھیں اپنے نجات دہندہ کے طور پر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی ۔

یاد رکھئے جہاں ظلم ہو گا وہاں مزاحمت کے لئے حسینیت ہو گی ، جہاں ضمیر زندہ ہوں گے وہاں حسینی افکار ہوں گے اور جہاں انسانیت کی بقا ہو گی وہیں حسین مظلوم کا علم سر بلند ہو گا ، آئیے اپنی زندگیوں کو اسوہ شبیری کی پیروی میں ڈھالنے کی کوشش کریں ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں