The news is by your side.

بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کے گھٹتے ہوئے وسائل

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر صدیقی / جویریہ صدیق


وطن عزیز کی آبادی ستر برس میں بائیس کروڑ ہو چکی ہے مگر وسائل میں اضافہ کی بجائے بتدریج کمی اہلِ فکر و دانش کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے ہاں دو طبقے اپنے اپنے نقطہ نظر کے تناظر میں دلائل و براہین کے انبار رکھتے ہیں۔ پہلا طبقہ آبادی پر کنٹرول کرنے پر زور دیتا ہے ۔ حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ ، اس کا لٹریچر، ریڈیو، ٹی وی پر اشتہارات وغیرہ وغیرہ ۔

کم بچے خوشحال گھرانہ ایک معروف سلوگن ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ وسائل نہیں ہیں۔ مکانات ، سڑکیں ، پارک اشیائے ضروریہ غرض ہر چیز طلب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ خوراک اس ضمن میں خاص طور پر کم بھی ہے اور مہنگی بھی ۔دوسرا طبقہ اولاد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتا ہے (جو بلا شبہ ہے) مگر وہ اس کی کثرت کو بھی زحمت نہیں سمجھتے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہر نو مولود اپنی قسمت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔اس لئے فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

ہر دو نقطہ ہائے نظر جزوی طور پر درست ہیں کم بچے ضروری نہیں کہ خوشحالی کا موجب ہوں اور کثرت اولاد ضروری نہیں کہ بھوک سے پریشان رہے۔ملکی وسائل سے قبل بچے اپنے والدین کے وسائل سے متاثر ہوتے ہیں ۔خوشحال والدین کے بچے آسائش و آرام میں پلتے ہیں جبکہ کم وسائل اور مفلوک الحال گھرانوں میں حالات دگر گوں ہوتے ہیں۔سنہ 1960میں امیر اور غریب ملکوں میں آبادی کا تناسب 30اور ایک تھا جبکہ 2010میں 95اور ایک ہوگیا ۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور خوراک زراعت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ گندم، چاول، چنا، مکئی ،گنا وغیرہ زرعی زمینوں سے ہی پیدا ہوتا ہے ۔ساٹھ سے ستر فیصد آبادی بلا واسطہ یا بلواسطہ زراعت سے منسلک ہے مگر آبادی میں روز افزوں اضافہ کی وجہ سے زرعی رقبہ کالونیوں ، کارخانوں اور دیگر مصارف میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ زرعی اجناس کی پیداوار اچھی ورائیٹیوں اور کھاد ، پانی کی وجہ سے بڑھی تو ہے مگر وہ رقبہ تیزی سے کم ہوا ہے جہاں سے یہ اجناس پیدا ہوتی ہے۔

ملکی معیشت کی حالت تشویشناک حد تک دگر گوں ہے ۔ ہر پاکستانی ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ منصوبہ بندی کمیشن کہتا ہے پاکستان میں 7کروڑ 77لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارے ہاں خط غربت سے مرادسو روپے روز کمانے والے افراد ہیں جبکہ عالمی بینک کے مطابق 250روپے کمانے والا غریب شمار ہوتا ہے ۔یوں صبح و شام کُرنا اور زندگی کی گاڑی کھنچنا کار محال ہے۔ کبھی شام خالی پیٹ رہنا پڑتا ہے اور کبھی صبح نانِ جویں میسرنہیں ہوتی۔

غریبوں کے جہاں میں وقت بھی رُک رُک کر چلتا ہے
کبھی صبحیں نہیں ہوتیں ، کبھی شامیں نہیں ہوتیں

اس معاشی تنزلی کا ایک سبب یہ بتایا جا تا ہے کہ پاکستان کے پاس عرب ملکوں کی طرح تیل کے کنویں نہیں ، ایران کی طرح گیس نہیں ، جنوبی افریقہ کی طرح سونے کی کانیں نہیں،ملائیشیاءکی طرح ربڑ اور پام آئل نہیں اور یہاں کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ بیرون ملک محنت مزدوری کر رہے ہیں حالانکہ ملک عزیز چار موسموں ، پہاڑوں ، وادیوں، صحراؤں اور دریاؤں کی سر زمین ہے ۔ پنجاب کی زمین زرخیزی میں لا جواب ہے۔ پختونخوا ہ قیمتی لکڑی کے جنگلات اوراس کے پہاڑ قیمتی پتھروں سے بھرے ہوئے، سندھ اور بلوچستان میں 600میل لمبی ساحلی پٹی ہے جو دنیا کا بہترین ساحل اورتجارتی بندرگاہوں پر مشتمل ہے۔

اسی لئے تو شاعر کا قلم اس سر زمین کے گن گاتا ہے۔

تیرے دہقاں یونہی ہل چلاتے رہیں
تیری مٹی کو سونا بناتے رہیں
تیرے فوجی جواں جُراتوں کے نشاں
تیرے مزدور اس دور کے کوہکن

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس کے شہری تعلیم یافتہ،ذہین اور صحت مند ہیں پھر پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل کیوں نہیں۔ ولڈ اکنامک فورم کی تازہ رپورٹ کے مطابق پہلی مرتبہ دنیا کی آدھی آبادی کا شمار امیر یا مڈل کلاس میں ہونے لگا ہے یعنی3ارب80کروڑ افراد درمیانے طبقے میں یا امیر طبقے میں شمار ہونے لگے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 52.23فیصد،پختونخوامیں34.66فیصد،سندھ میں33.16فیصد اور پنجاب میں 21.66فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ 66فیصد لوگ پروٹین کی کمی کا شکار ہیں انہیں دودھ ، گوشت، انڈہ یا تو بالکل میسر نہیں یا مطلوبہ مقدار سے کم میسر ہے۔ متوازن خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ جسمانی اور دماغی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ پسماندہ علاقے مثلاََ تھر پارکر اور چولستان کے صحرا مکین خوراک تو کجا پانی کو ترس رہے ہیں۔ خوراک کا قحط ننھے بچوں کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا رہا ہے اور ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی خبریں اہل بست و کشاد کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

زمین نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے

ایک جانب تھر کے فاقہ زدہ ،ننگے بدن، مفلوک الحال لوگ دوسری جانب شہروں میں ایکڑوں پر پھیلے فارم ہاؤس، عالی شان بنگلے اور کوٹھیاں اور پنج تارہ ہوٹلوں میں لاکھوں کے
کھانے۔

بقول نصرت صدیقی

  بنا رہے ہو عبث کھیل کود کے میداں
مرے وطن کے بچے تو کام کرتے ہیں

ملک کے ماہر امراض دماغی و نفسیاتی کا کہنا ہے کہ وطنِ عزیز میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد معاشی بد حالی ، روزگار کی پریشانی اور امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک کی بیشتر آبادی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہے مہنگائی اور بجلی گیس کے بلوں نے کمر توڑ رکھی ہے تنخواہ دار سفید پوش طبقہ پریشان حال ہے۔

کس ضرورت کو دباؤں ، کسے پورا کرلوں
اپنی تنخواہ کئی بار گنی ہے میں نے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں جو کسانوں کو کاشتکاری پر خوش دلی سے کام کرنے کی طرف راغب کریں۔ زرعی زمینوں پر رہائشی ، صنعتی کارخانے اور شاپنگ پلازے بنانے کی حوصلہ شکنی کی جائے ورنہ زرعی اجناس کے لئے اگر زمین نہ ہوئی تو پیداوار کہاں سے آئے گی اور مخلوقِ خدا پیٹ کیسے بھرے گی۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں