آرمی پبلک اسکول پشاور میں سفاک دہشت گردوں کے ہاتھوں لکھی جانے والی اس ظلم کی داستان کو کوئی بھلا نہیں سکتا، کیونکہ یہ وہ سانحہ تھا جس نے ہر دل کو گھائل کیا اور ہر آنکھ کو اشکبار کیا۔ یہ وہ اندوہناک واقعہ تھا جس کے شہداء کے سوگواران میں پورا ملک شامل تھا۔ خیبر سے پشاور تک ہر کسی کو یکجہتی کی لڑی میں ان معصوموں کے لہو نے پرو دیا۔ ہماری عسکری اور سول قیادت سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور ہوگئی اور دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل ’نیشنل ایکشن پلان‘ کے نام سے تشکیل دیا گیا جس میں کچھ نکات فوج کے زیر طابع تھے اور کچھ سول قیادت کے۔ مگر متعدد نکات پرتو سرے سے کام ہوا ہی نہیں مثلاً مدارس کی ریگولیشن اور اصلاحات۔ خیراب تو نیشنل ایکشن پلان بھی حکومتی فائلوں میں دب کر دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ جسے ان شہداء کے لواحقین ایک لولی پاپ کے طور پر تصور کرتے ہیں جو انہیں بہلانے کے لئے اس وقت دیا گیا۔ ان کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آج بھی ان کے بچوں کا قاتل (ملا فضل اللہ) افغانستان میں بیٹھ کر مزید بچوں کے قتل کی منصوبہ سازی آئے دن کرتا رہتا ہے( چارسدہ یونیورسٹی اور زرعی تربیتی مرکز جیسے حملوں کا بھی ماسٹر مائنڈ وہی تھا) مگر ہماری حکومت اُس امریکی سرکار سے اپنے بچوں اور شہریوں کے قاتل کو ہمارے حوالے کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکتی جو آئے دن ہمیں ڈو مور پر بھاشن دیتا رہتا ہے۔
مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں اس سانحے کے نتیجے میں ہارڈ کاؤنٹر ٹیررازم کی پالیسی کے تحت ملٹری آپریشنز میں تیز رفتاری آئی۔ اور چن چن کر اس گند کو ملک کے ہر کونے کھدرے سے بلا امتیاز و تفریق صاف کیا گیا۔ جس کے نتائج آج ہم ملک میں بصورت امن موصول کر رہے ہیں۔ مگر اس امن کے پودے کو ملک میں پروان چڑھانے کے لئے اے پی ایس کے بچوں کے علاوہ اے پی اسکول کے ورکنگ سٹاف اور اسکول کے مرد اور خواتین اساتذہ کا بھی لہو شامل ہے۔ جن کی کل تعداد بائیس ہے۔ جن میں دو مرد ٹیچرز، دس خواتین اساتذہ اور دس ممبران اسکول کے ورکنگ اسٹاف(مالی، گارڈ، ڈرائیور، لیب اسسٹنٹس اور کلرک وغیرہ) کے شامل ہیں۔ خواتین اساتذہ میں مس صائمہ زرین طارق، مس حفظہ خوش، اور مس سحر افشاں وہ بہادراور قابلِ ستائش اساتذہ ہیں جو محض اپنے طلبہ کو ان درندہ صفت حیوانوں سے بچانے کی پاداش میں زندہ جلا دی گئیں۔ اور اسکول کی پرنسپل میڈم طاہرہ قاضی جنہیں ان کے دفتر میں دستی بم پھینک کر شہید کیا گیا۔
معصوم بچوں پر اس اسکول میں جو ظلم کے پہاڑ ٹوٹے اس کی نظیر بھی انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ اے پی ایس پشاور کے آڈیٹوریم ہال میں مُلا فضل اللہ کے سات دہشت گردوں نے جو حیوانیت کی نئی تاریخ رقم کی اسے پڑھ کر بھی یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارا دشمن بہت بزدل ہے جو میدانِ جنگ میں ہمارے فوجیوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کر پیٹھ پیچھے سے ان کے گھروں میں ان کے بچوں اور خواتین کو نشانہ بناتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق صرف آڈیٹوریم ہال سے 100 شہید بچوں کے جسدِ خاکی اٹھائے گئے۔ اور ڈیلی میل آن لائن یوکے مطابق ایک شرپسند نے خود کو کمرہ جماعت میں دھماکے سے اڑا دیا جس میں ساٹھ کے قریب طلبہ موجود تھے۔ علاوہ ازیں، طلبہ کو سروں پر نشانہ لے لے کر انہیں مارا گیا اور ذبح بھی کیا گیا کیونکی پشاور سی ایم ایچ میں متعدد بچوں کے جسدِ خاکی بنا سروں کے بھی رپورٹ کئے گئے۔
جو بچے اس سانحے میں زخمی ہوئے وہ کس ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ خون میں لت پت پڑے اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کے چہرے انہیں کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔ مگر ان بہادر بچوں کو سلام جو اتنے انسانیت سوز اور المناک واقعے کے بعد ، آج بھی اسی اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں۔ بلکہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کا بدلہ لینے کے عزم سے پاک فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے متمنی ہیں۔ بلا شبہ یہ بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں ان کی صلاحیتوں سے دشمن اس قدر خائف ہے کہ بار بار انہیں ہدف بناتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ ہم ایک مضبوط اعصاب کی مالک قوم ہیں جن کے ملک کی بنیادوں میں بھی لہو ہے اور تعمیر و ترقی میں بھی، جن کے ملک کے دفاع و بقاء میں بھی لہو ہے اس لئے ہم دشمن کے ایسے ہتھکنڈوں اور چالوں سے گھبرانے والے نہیں۔ ہمارا عزم غیر متزلزل ہے، ہم دہشت گردی کے اس ناسور سے چھٹکارا پا کر ہی دم لیں گے۔