The news is by your side.

نئے سال میں بدلتا ہوا نیا پاکستان

سال 2018ء جو پاکستان کے لئے حقیقی تبدیلی کا سال بن کا سامنے آیا اب اپنے ساتھ کئی دیگر اہم واقعات لے کر رخصت ہو گیا ہے، جس کے دو رس اثرات آنے والے سالوں میں یقینی طورپرمرتب ہوںگے۔ اس سال میں جہاں پاکستان کی گھسی پٹی سیاسی جماعتوں کی حکومت کرنے کی باریوں سے جان چھوٹی وہیں امن و امان کی صورتحال میں بھی کافی بہتری نظر آئی۔ اس سال میں پاکستان کی سرزمین پر کرکٹ بھی لوٹی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا جس کے باعث باہر سے سرمایہ کاری بھی آنی شروع ہوئی ۔ مگر بد قسمتی سے اسی سال پاکستان فیٹف ‘گرےلسٹ’ میں ایک بار پھر (2012ءکے بعد) شامل ہو گیا۔

کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی مگر سال کے اختتام پر ایم کیو ایم کے سابق معروف سیاسی راہنما علی رضا عابدی بد قسمتی سے اسی ٹارگٹ کلنگ کا لقمہ بن گئے۔

عدلیہ کا کردار اس پورے سال نہایت قابل تحسین رہا۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں شریف خاندان کو باقاعدہ سزائیں سنائی گئیں۔ جس سے معاشرے میں امید کی کرن جاگی کہ قانون صرف غریب پر نہیں بلکہ امیر پر بھی یکساں طور پر لاگو ہو سکتا ہے۔

مزید براں، سال 2018ء میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی خاصی غیر مستحکم رہی۔ سال 2018ء کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان کوتین اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی ادائیگیاں کرنی پڑیں جو بنیادی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بڑی کمی کا باعث بنیں۔ یوں شرع نمو کم ہوئی اور حکومت کے معاشی مسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا۔ اورورلڈ بنک کے ماہرین کی رائے میں پاکستان کے معاشی اعشاریے پچھلے اٹھارہ ماہ میں ابتری کا شکار رہے۔ جس کی ایک وجہ مسلسل بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ ہے، جس کے پس پردہ محرکات میں حکومت کی نرم مالیاتی پالیسی، اس کے علاوہ روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی پالیسی نے بھی اس ابتری میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے ریکارڈ ساٹھ اعشاریہ نو ارب ڈالرز کی درآمدات کیں۔ جبکہ گزشتہ سال پاکستانی برآمدات اس کی درآمدات کے آدھے سے بھی کم یعنی معیشت کا تقریباً سات فیصد رہیں، جس کا نتیجہ بالآخر سینتیس اعشاریہ سٹرسٹھ بلین ڈالرز کے تجارتی خسارے کی صورت میں نکلا۔

اس گمبھیر معاشی صورتحال کے پیش نظر اگست میں عمران خان حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی ملک چلانے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لئے دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے مدد لینے کو زیر غور لانا پڑا۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے کسی بیل آؤٹ کی درخواست کے آپشن سے پہلےانکار اور پھر باقاعدہ درخواست کی گئی۔ مذاکرات کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کسی مجوزہ بیل آؤٹ کے لئے جو شرائط دی گئیں، اطلاعات کے مطابق ان میں سے ایک محصولات کے نظام کو بہتر بنانے کی بھی تھی۔ علاوہ ازیں، پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو تیرہ فیصد ہے  جو کہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ المختصر، پاکستان کو اس وقت بڑھتے مالیاتی خسارے، سست معاشی ترقی، اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

اس لئے معاشی ماہرین کے مطابق سال 2019ء گزشتہ سال کے مطابق زیادہ مشکل سال ہو گا۔ جس میں مہنگائی بھی بڑھے گی، بے روزگاری بھی ہو گی مگر پھر بھی یہ سال بہت اہم ہو گا کیونکہ حکومت جو پالیسیاں اپنائے گی اس کے نتائج آئندہ سالوں میں ملنا شروع ہونگے۔ واضح رہے کہ ورلڈ بنک بھی سال 2019ء میں پاکستان کی معاشی شرع نمو میں کمی کی پیشگوئی کرچکا ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان کی چین، سعودی عرت اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے مالی مدد کی کوششوں کا نتیجہ بیجنگ کی جانب سے سرمایہ کاری کے وعدوں اور ریاض اور ابو ظہبی کی جانب سے اربوں ڈالرز کی مدد کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ تاہم عالمی ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت کے لئے اٹھائے گئے اقدامات عارضی اور ناکافی ثابت ہوں گے۔

اگربات کی جائے امورِ خارجہ کی تو اس میں پاک امریکہ تعلقات گزشتہ سال بہت نمایاں رہے۔ اس سال پاک امریکہ تعلقات کا توازن مجموعی طو پرپاکستان کے حق میں رہا۔ اور پاکستان کا واضح جھکاؤ امریکہ سے ہٹ کر روس کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔ اس ضمن میں روسی فورسز کے ساتھ ملکر پاکستان نے جنگی مشقیں بھی کیں۔ علاوہ ازیں، ٹرمپ کی ‘وار آن ٹیرر’سے متعلق پاکستان پر بہتان بازیوں کا جواب پہلی بار پاکستانی وزیر اعظم نے بذریعہ ٹویٹر خود دیا جس کو عالمی سطح پر کافی پذیرائی ملی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسی سال ایسا بھی ہوا کہ امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادیوں کی نفی کا الزام لگا کر بلیک لسٹ کر دیا اور پاکستان کے احتجاج پر اسے فوراً چند گھنٹوں میں بلیک لسٹ سےہٹانا پڑا۔ اس سے بھی زیادہ قابل تحسین بات یہ ہے کہ پہلے جو بھی کوئی اقتدارسنبھالتا تھا وہ فوراً اپنے آقاؤں سے اشیرباد لینےامریکہ یاترہ کو روانہ ہو جاتا تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستانی وزیراعظم کو چار ماہ ہونے کو ہیں اور تا حال انہوں نے امریکہ کا کوئی دورہ نہیں کیا۔ ان ساری باتوں سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ پاکستان تیزی سےامریکی اثرورسوخ سے باہر نکل رہا ہے۔

امریکہ آج اگرافغانستان سے جانے کی بات کر رہا ہے تو اس میں پاکستان کا بہت بڑا کردار ہے۔ امریکہ جو پہلے طالبان کو تسلیم کرنے کے لئے ہی تیار نہیں تھا اور سترہ سال تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا رہا۔ بالآخرامریکہ کے ان سے مذاکرات پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوئے جیسا کہ پاکستان کا شروع سے ہی مؤقف تھا کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ ڈائیلاگ سے حل ہو گا۔ دونوں ممالک کے مابین دہشت گردوں اور اسمگلرز کی نقل و حمل کو روکنے کے لئے پاکستان کی مغربی سرحد پر تیزی سے باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ جس سے آئندہ دونوں ممالک کے تعلقات میں یقینی طور پر بہتری آئے گی۔

اگر بات کی جائے مشرقی سرحد کی تو پاکستان نے سال 2018ء میں بھارتی پنجاب کے سکھ یاتریوں کی سہولت کے لئے کرتار پور راہداری کھول کر یکطرفہ طور پر میدان مارا جس سے بھارتی میڈیا کی چیخیں آسمان تک سنائی دیں ۔ محققین کے مطابق پاکستان کے اس طرز عمل نے بھارت کو عالمی سطح پر جہاں بےنقاب کیا کہ وہ مذاکراتی میز سے ہمیشہ بھاگتا ہے وہیں اس سے خالصتان تحریک کو بھی ایک نئی روح ملی۔

اگر بات کی جائے مشرق وسطیٰ میں یمن کے مسئلے کی تو پاکستان نے گزشتہ سال اس میں ثالثی کے کردار کی پیشکش کی جس کا حوثی باغیوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا۔ الغرض سال 2018ء پاکستان کے لئے معاشی بحران کے باوجود کافی اچھا سال رہا۔ اس سال عالمی منظرنامے کا حصہ بننے والے چند چیدہ چیدہ واقعات میں شمالی کوریا کے لیڈر اورامریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات، سعودی عرب کی جانب سے ترک صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات اور 18 مشتبہ ملزمان کی گرفتاریاں، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یادھو کا دورہ اومان، فرانس میں زرد صدری تحریک اور اس کا احتجاج، حوثی باغیوں کی جانب سے بحر احمر میں سعودی تیل بردار جہاز پر حملہ اور یورپی ملکوں کی برطانوی حکومت کے ساتھ بریگزیٹ پررائے شماری شامل ہے۔

علاوہ ازیں، گزشتہ سال بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے معصوم کشمیریوں پرظلم و بربریت کی داستانیں تواتر سے رقم کی جاتی رہیں مگر مجال ہے کہ عالمی برادری کے سر پرجوں تک رینگی ہو۔ مگر گزشتہ سال سماجی میڈیا کیوجہ سے مظلوم کشمیریوں کی تحریک کو یقینی طور پر ایک نئی جلا ملی جو شاید مستقبل قریب یا بعید میں اس مسئلے کے حل میں کلیدی کردار ادا کرے۔

2019ء ایک نئے ولولے اور ایک نئی امید کے سورج کے ساتھ طلوع ہوا ہے قوی امید ہے کہ رواں سال افغانستان سے امریکی انخلاء کا سال ہو گا اور اسی سال میں یمن کا مسئلہ بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا نیز یہ سال پاکستان کی بھی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انشاء اللہ!۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں