The news is by your side.

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

بچپن سے ہم ایک ہی سلوگن سنتے آئے ہیں ’’ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب ، کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب ‘‘ اب ہم نے تو اپنی ساری زندگی اسی سلوگن پر گزار دی اس لئے حسرت سے اپنے سکالرشپس کو دیکھتے ہیں تو دوسری جانب موٹاپے کا روگ اپنی جان کو لگا بیٹھے ہیں ۔خیر ہم تو یہ غلطی کر ہی چکے ہیں لیکن آپ ایسا ہر گز نہ کیجئے گا، کیونکہ مادر وطن کو صرف شاہینوں کی نہیں مایہ ناز کھلاڑیوں کی بھی ضرورت ہے ۔

ہمارے ملک میں کھیلوں کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کھیلوں کی کوئی دنیا ہی بسنے نہیں دی جاتی ۔ بلکہ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اذان کے بعد زیادہ سے زیادہ نمبر لینے اور فرسٹ آنے کا الٹی میٹم دیا جاتا ہے ۔بچہ اگر اٹھانوے فیصد نمبر بھی لے لے تو امریکا کی طرح اس پر ’’ ڈو مور ‘‘ مسلط کر دیا جاتا ہے ۔

ایک تو پڑھائی کا پریشر، دوسرا والدین بچے کا دوسرے بچوں سے موازنہ کرنے میں نہیں چوکتے ۔ بھئی دیکھو خاور بھائی کے بچوں نے اتنی محنت کی کہ ان کے بچوں کا داخلہ میڈیکل میں ہو گیا ۔یعنی تو چاہے ’’ چیں کر یا پیں ‘‘ تجھے کتابوں کا بوجھ ڈھونا ہی ہو گا ۔ ٹھیک ہے کہ درسی کتب پڑھنا بھی ضروری ہے لیکن کیا بچے کی جسمانی سرگرمیوں میں شمولیت کا کوئی جواز نہیں ؟۔

دوسرا مسئلہ جس کا تعلق خالصتاًخواتین سے ہے کہ کھیلوں کے لئے ان کی حوصلہ افزائی اس طرح نہیں کی جاتی جس طرح کہ ہونی چاہیے ۔ اول تو انھیں گھر سے ہی اجازت نہیں ملتی کہ سب سے بڑا روگ ، کیا کہیں گے لوگ ؟ ہی ہے ۔ رشتے داروں اور محلے والوں کے خوف سے بھی بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کو کھیلوں کے میدان میں نہیں بھیجتے ساتھ ہی خواتین کو گیمز سیشن کے دوران جنسی اور جسمانی ہراسگی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے اگرچہ کہ سب کو نہیں ، لیکن والدین کا یہ خدشہ بہرحال اپنی جگہ موجود اور کسی حد تک درست بھی ہے ۔

پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خواتین بیلن، چمٹا اور سلائی مشین سنبھالنے کے لئے ہی پیدا ہوئی ہیں اس لئے ان کے ہاتھ میں کرکٹ کا بلا ، ٹینس کا ریکٹ اور رگبی سوٹ نہیں کرتی ۔ سو ٹیلنٹ کا قتل ہوتا ہے۔ فیورٹزم کو بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کئی اچھے کھلاڑی اس لئے ضائع ہو جاتے ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین کہ بہت سے افراد اپنے نکمے بچوں کی بھرتی کے لئے ’’ اپنا ہی بچہ ہے ، ذرا دھیان رکھیے گا ‘‘ کہتے پھرتے ہیں اور ساتھ ہی کسی بھی اہم شخصیت سے ایک اہم ترین فون کال کھڑکا دی جاتی ہے اور بس کام بن جاتا ہے ۔

کھیلوں کا مسئلہ تو یہ ہے ہی لیکن ساتھ ہی یہ ایک المیہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں صرف کرکٹ کا ہی جنون ہے ، بیس بال ، ٹینس ، رگبی ، فٹ بال ، والی بال ، سوئمنگ ان سب کو کھیل ہی نہیں سمجھا جاتا ، ہاں البتہ کرکٹ کے میدان میں اترنے والوں کی شکست پر خوب آنسو بہائے جاتے ہیں ، میچ فکسنگ ہوتی ہے ، کبھی ٹی وی تو کبھی بلے تک توڑ دئیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی جنون ختم نہیں ہوتا ، کیونکہ ہم تو جیتیں گے، جیسے باقی سارے تو گلی ڈنڈا کھیلنے آئے ہیں ( ویسے گلی ڈنڈا ہمارے والدین کے بچپن کے زمانے کا کھیل تھا جو شاید اب بھی دیہی علاقوں میں کھیلا جاتا ہے ) ۔

دوسری طرف ہر نوجوان ہیرو بننے کا خواہش مند ہے ۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ کم تے جوان دی موت ایہہ ‘‘ بس جناب نوجوان محنت سے گھبراتے اور شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن ہر دفعہ شارجہ کا چھکا نہیں لگتا ۔بلکہ اس کے لئے بھی محنت درکار ہوتی ہے ۔ سو ہمارے شاہین ہاتھ پیر چھوڑ کر موبائل پر کھیل کا شو ق پورا کرتے ہیں ، ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھنا ، پلیٹ بھر فرنچ فرائز اور جنک فوڈ کھاتے ایسے نوجوان آپ کو اکثر اپنے اردگرد دکھائی دیں گے ۔ اور یہ ایک ایسی تھکی ہوئی نسل ہے جو کچھ نہ کرتے ہوئے بھی تھکی ہوئی ہوتی ہے ۔

اب ایسے جوانوں سے تو کوئی پانی کا گلاس بھی نہیں مانگ سکتا ، کیونکہ وہ موبائل کا گیم نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہاں بیٹھے بیٹھے جتنی مرضی باتیں کروا لو ۔ جبکہ کھیل اور دیگر جسمانی سرگرمیاں نوجوانوں کی طاقت کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہیں اور جذباتی طور پر بھی انھیں سہارا دے کر ایک مضبوط فرد بناتی ہیں اور ان میں سپورٹس مین سپرٹس پیدا کرتی ہیں ۔

ان سب مسائل کا حل سب سے پہلے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے میں ہے ۔ والدین پڑھائی کے ساتھ کھیلوں کی اہمیت کو بھی سمجھیں ، بچوں کی جسمانی سرگرمیوں کے لئے صحت مندانہ ماحول مہیا کیا جائے ، خواتین کی کھیلوں کے میدان میں حوصلہ افزائی اور کرکٹ کی طرح دیگر کھیلوں کی حکومتی سرپرستی بھی ہمارے ملک کو بالخصوص اور اقوام عالم کو بالعموم بہترین کھلاڑی فراہم کر سکتی ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں