The news is by your side.

بالی وڈ کو مشکلات میں‌ دھکیلنے والی فلم کی کہانی

آج ہندوستانی سنیما پر نظر ڈالی جائے تو ساؤتھ انڈین فلموں کا پلڑا واضح طور پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔ ہندی سنیما کی پہلے ہی کورونا نے کمر توڑ رکھی تھی، اوپر سے شائقین کو نئے ذائقے کی جو چاٹ لگی ہے، اس نے بالی وڈ کو ہلکان کر دیا ہے۔

بالی وڈ اور ساؤتھ انڈین فلموں‌ پر پچھلا بلاگ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سنہ 2022 تو ہندی سنیما پر بہت ہی بھاری گزرا۔ “آر آر آر” اور “کے جی ایف پارٹ ٹو” جیسی بلاک بسٹر ساؤتھ انڈین فلمز ریلیز ہوئیں۔ دونوں فلموں نے 1200 کروڑ کا ہندسہ عبور کیا۔ (تا دمِ تحریر آر آر آر کی جاپان میں نمائش جاری ہے اور یہ فلم آسکر کی نامزدگی کے حوالے سے بھی زیرِ بحث ہے)

اس کے مقابلے میں ہندی سنیما کی طرف دیکھیں‌ تو وہاں سے کوئی بڑی فلم نہیں آئی۔ اکشے کمار اور عامر خان کی میگا بجٹ کی فلمیں فلاپ ہوئیں۔ ریتک روشن “وکرم ویدھا” کے ری میک میں کوئی جادو نہیں جگا سکے۔ رنبیر کپور کی “برہماستر” بھاری پرموشن اور میگا بجٹ کے بعد بہ مشکل ساڑھے چار سو کروڑ ہی کر سکی۔

گویا “کے جی ایف ٹو” اور “آر آر آر” کو تو رہنے ہی دیں، بالی وڈ میں ہٹ ٹھہرائی جانے والی فلمیں ساؤتھ کی دیگر فلموآں کی بھی ہم پلہ ثابت نہیں ہوئیں۔ رواں برس نامور اداکار کمل ہاسن چار سالہ وقفے کے بعد “وکرم” کی صورت لوٹے، تو فلم نے چار سو کروڑ کا دھماکے دار بزنس کیا۔ منی رتنم کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم Ponniyin Selvan: I نے پانچ سو کروڑ کا ہندسہ عبور کیا۔ اور ان سے زیادہ حیران کن تھی کنٹر زبان میں فقط دس کروڑ کی لاگت سے بننے والی رشبھ شیٹھی کی فلم “کانتارا”، جس نے ناقدین اور ناظرین دونوں کے دل جیت لیے اور چار سو کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔

الغرض اس وقت ایک جانب جہاں ہندی فلمیں مشکلات کا شکار دکھائی دے رہی ہیں، وہیں ساؤتھ انڈین فلم کے لیے روای چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ رام چرن، این ٹی آر جونیئر اور الو ارجن جیسے اداکاروں کو نئی مارکیٹیں اور نئے مداح میسر آرہے ہیں، وہیں ہندی اسٹارز اپنے محتاط طرز فکر کی وجہ سے اپنی ہی مارکیٹ میں محدود ہوگئے ہیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج انڈین سنیما کا مرکز بدل گیا ہے اور یہ گزشتہ سو برس میں پہلی بار دیکھنے میں‌ آیا ہے۔ ورنہ ہمیشہ ممبئی کی انڈسٹری ہی غالب رہی۔ اگرچہ تامل، تیلگو اور ملیالم سنیما میں تواتر سے فلمز بنتی رہیں، مگر ممبئی سنیما ہی کو مرکزی دھارے کا سنیما تصور کیا جاتا تھا۔ مغرب میں بھی جب کبھی انڈین سنیما کی بات ہوتی، تو بالی وڈ ہی کو اس کا چہرہ تصور کیا جاتا۔ مگر پھر ایک فلم نے پورا منظر بدل دیا۔ ہندی سنیما پر ایسی ضرب لگی کہ وہ پھر سنبھل ہی نہیں سکا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ڈھائی عشروں سے بالی وڈ الجھن میں تھا۔ ہم نے اس حوالے سے جن تین نکات کو آپ کے سامنے رکھا تھا، انھیں‌ دہرا دیتے ہیں۔ پہلا: بالی وڈ کا روایتی کمرشل سوچ کا شکار ہو جانا۔ دوسرا: معیاری ساؤتھ انڈین فلمز کی ہندی ڈبنگ۔ اور تیسری بات تھی انتہا پسندی کا فروغ، جس نے بالی وڈ کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔

البتہ اس بلند اور مضبوط تصوّر کی جانے والی عمارت کی کمزوری اس وقت عیاں ہوئی، جب اس پر ایک کاری ضرب لگی اور اس کا سبب بنی تیلگو فلم باہوبلی۔

گو ہندی ناظرین اور ناقدین راجا مولی کے نام اور کام سے واقف تھے۔ اکشے کمار کی بلاک بسٹر فلم “راؤڈی راٹھور” راجا مولی ہی کی فلم کا ری میک تھی۔ راجا مولی کی فلم Eega نے بھی خاصی داد بٹوری تھی۔ البتہ یہ 10 جولائی 2015 کو ریلیز ہونے والی باہوبلی کا اوّلین پارٹ تھا، جس نے راجا مولی کو صف اوّل کے ہدایت کاروں کی فہرست میں لاکھڑا کیا اور فلم کے ہیرو پربھاس کو تیلگو سنیما سے اٹھا کر بین الاقوامی چہرہ بنا دیا۔

بھاری سرمایے سے بننے والی اس فلم میں وی ایف ایکس پر خاصی توجہ دی گئی تھی، البتہ جس چیز نے اسے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنایا، وہ تھے رامائن اور مہا بھارت سے ماخوذ واقعات اور ہندو اساطیر کے حوالے۔ اس نے ناظرین کو فوری طور پر فلم سے جوڑ دیا۔ اور اس میں تخلیقت کا عنصر بھی کار فرما تھا۔ فلم پر محنت کی گئی تھی اور وقت صرف کیا گیا تھا۔ یوں تو کئی مثالیں موجود ہیں، مگر ایک یہاں پیش کیے دیتے ہیں۔

فلم میں کالاکییہ نامی ایک قبیلہ تھا، جس کے لوگوں کو مختلف چہرے مہرے کے ساتھ ہی نہیں پیش کیا گیا بلکہ اس قبیلے کے لیے ایک نئی زبان بھی تراشی گئی۔ انہی عوامل نے فلم کو ناظرین کی توجہ دلائی اور 200 کروڑ کی اس فلم نے 600 کروڑ سے زائد کا بزنس کیا۔

یہ ہندوستان میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی پانچویں بڑی فلم قرار پائی، جب کہ تیسری سب سے زیادہ کمائی کرنے والی جنوبی ہندوستانی فلم بنی۔ ہندی ڈبنگ کے ساتھ 115 کروڑ کا بزنس کرکے فلم نے ناقدین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

اس فلم کے کرداروں نے شائقین کے دلوں تک رسائی پائی اور کلائمکس ان کے ذہنوں پر نقش ہوگئے۔ فلم کے کردار کٹپا کا اپنے ہی سپہ سالار باہوبلی کو دغا دینا ایک پرتجسس سوال بن گیا: “کٹپا نے باہوبلی کو کیوں مارا؟” اس سوال نے ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کر لی۔

اس فلم کی زبردست کام یابی نے ہندی سنیما کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ البتہ اس سے پہلے کہ بالی وڈ سنبھلنے کی سعی کرتا، باہو بلی کے دوسرے پارٹ کا اعلان ہوگیا اور لگنے لگا کہ وقت ہندی سنیما کے کرتا دھرتاؤں کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل رہا ہے۔

جب 28 اپریل 2017 کو باہو بلی ٹو ریلیز ہوئی، تو اندازہ ہوا کہ بالی وڈ کے لیے حالات توقع سے زیادہ خراب ہیں۔ اس فلم نے پہلے ہی دن ہندوستان بھر میں سو کروڑ نیٹ کا ناقابلِ یقین بزنس کر ڈالا۔ ایک شان دار آغاز کے بعد یہ رکی نہیں۔ ایک کے بعد ایک ریکارڈ بناتی چلی گئی۔ ایک ڈب فلم نے ہندی سرکٹ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے کا ریکارڈ توڑ ڈالا اور 511 کا ہندسہ عبور کر لیا، جو گزشتہ پانچ برس سے ناقابل شکست ریکارڈ بنا ہوا ہے۔ (اس کے ہندی ورژن کے رائٹس معروف فلم ساز کرن جوہر کے پاس تھے، جنھوں نے اس سے ریکارڈ منافع کمایا)

اس فلم نے ہندوستان کے مختلف سرکٹس میں 1,429 کروڑ بٹورے۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے، جسے عبور کرنے کا ارادہ کرنا بھی اپنی جان جوکھم میں ڈالنے جیسا ہے۔ گزشتہ پانچ برس میں کوئی اس کے آس پاس بھی نہیں پھٹک سکا۔ فلم نے مجموعی طور پر دنیا بھر میں 1,810 سمیٹے۔

ہندوستان کے تمام سرکٹس سے تعلق رکھنے والے فن کاروں، اداکاروں اور ناقدین نے اسے ایک گیم چینجر فلم قرار دیا۔ اس نے تمام تر تصورات کو تہس نہس کر دیا۔ اس ایک فلم نے تبدیلی کا پہیہ چلا دیا۔ کل تک بالی وڈ کو ہندوستان کا مین اسٹریم سنیما تصور کیا جاتا تھا، مگر راجا مولی کی دبنگ ہدایت کاری اور پربھاس کی پانچ برس کی محنت نے اس دھارے کا رخ بدلنا شروع کر دیا۔

باہوبلی کی کام یابی نے دیگر فلم سازوں کو حوصلہ دیا۔ انھیں ہندی سرکٹ ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے طور پر نظر آنے لگا۔ ہندی فلم بین بھی ساؤتھ سے آنے والے نئے ذائقے چکھنے کے لیے تیار تھے۔ اگلے ہی برس کنٹر سنیما کی ایک کم بجٹ کی فلم “کے جی ایف” کو سپراسٹار شاہ رخ خان کی “زیرو” کے مدمقابل ریلیز کردیا گیا۔

“زیرو” تو اپنے کمزور اسکرپٹ ہی کے بوجھ سے ڈھے گئی، مگر پرشانت نیل کی فلم کو حیران کن ردعمل ملا اور یش کی صورت ایک نئے اسٹار کی انٹری ہوگئی۔

جب پربھاس اور راجا مولی کی نئی فلمیں اناؤنس ہوئیں، تو توقع کے عین مطابق انھیں خاصی توجہ ملی۔ ان فلمز کے لیے “پین انڈیا” کی ترکیب برتی جانے لگی، یعنی وہ فلمیں، جن کے ناظرین پورے ہندوستان میں موجود ہوں، جو ساؤتھ، نارتھ اور عالمی مارکیٹ میں یکساں انداز میں ریلیز ہوں۔

باہوبلی کے بعد ساؤتھ کا سنیما جہاں آر آر آر، کے جی ایف، پشپا اور کانتارا جیسی سپرہٹ پین انڈیا فلمز دے چکا ہے، وہاں ہندی سنیما تاحال ایک ایسی فلم پیش کرنے کی کوششوں میں جٹا ہوا ہے، جو دیگر سرکٹس کی بھی توجہ حاصل کرسکے۔ کیا اگلا سال اس کے لیے کوئی اچھی خبر لائے گا؟ یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں