The news is by your side.

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!

ایک وہ وقت تھا جب استاد اور شاگرد کے تعلق میں باہمی اخلاص، بے غرضی، احترام، شفقت، رواداری اور درگزر کے رنگ شامل تھے۔ محبت اور شفقت کے ساتھ اساتذہ حسبِ موقع و ضرورت اپنے شاگردوں

کی اصلاح بھی اس طرح کرتے کہ شاگرد اپنی ہتک محسوس نہ کرتا۔ حتیٰ کہ استاد کے سخت رویّے کے جواب میں بھی تابع فرمان رہتا بلکہ خود پر رشک کرتا کہ اُستاد کی نظر میں اس کی اہمیت ہے۔

یہی وہ سوچ تھی جس کے تحت استاد اور شاگرد کے باہمی رشتے میں نہ صرف انوکھی لذت محسوس ہوتی بلکہ اس تعلق کی ڈور روز بہ روز مضبوط ہوتی چلی جاتی اور شاگرد محض اپنے استاد کی دی ہوئی تعلیم ہی کو نہیں بلکہ استاد کے حُسنِ سلوک اور فیضانِ تربیت کو اس طرح عام کرتے کہ استاد کو بجا طور پر اپنے شاگرد پر فخر محسوس ہوتا۔ وہ اپنے اندرعجیب قسم کی سرشاری اور طمانیت محسوس کرتے کہ ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت رائیگاں نہ گئی۔

اصل بات یہ ہے کہ کل کے استاد اپنے شاگردوں کو محض زیورِ علم ہی سے آراستہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے حُسنِ عمل کی روشنی سے ان کی سیرتیں بھی منوّر کرتے تھے۔ اور اُستاد کے فیضانِ نظر کے نتیجے میں شاگرد وہ مقام حاصل کر لیتے کہ زمانہ اُن کی تعظیم کرتا۔ لیکن یہ گئے دنوں کی بات ہے جب اخلاقیات بدن میں لہو کی طرح دوڑا کرتی تھی۔ اب تو ایسے استادوں اور شاگردوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ بلاشبہ یہ لمحۂ فکر اور افسوس ناک ہے۔

اس سارے فساد میں قصور وار کون ہے؟ محض استاد یا صرف شاگرد؟ یا انسانی رویوں میں تبدیلی کے منفی اثرات، یا پھر انسانی فطرت؟ کیونکہ یہ بہت بڑی سچائی ہے کہ رویّے فطرت اور تربیت کے باہمی اشتراک ہی سے عمل پذیر ہوتے ہیں جو اگر مثبت ہوں تو اُجالے ہی اُجالے ہیں اور منفی ہوں تو گھپ اندھیرا۔ نفسا نفسی کے اس دور میں استاد اور شاگرد کے مابین شفقت و محبت اور عزت و احترام کے بجائے بغض، نفرت اور جارحانہ اختلاف نظر آتا ہے۔ اب نہ اُستاد کو اپنے رتبے کا پاس رہا اور نہ ہی شاگرد کو اُستاد کے مقام کا خیال ہے۔دونوں جانب سے شکایتوں کا دفتر کھلا ہوا ہے، ایک دوسرے کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ ایسے میں کون کردار سازی کی جانب دھیان دے اور کون کس کے ارفع کردار کی روشنی میں اپنی سیرت تشکیل دے گا۔

ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کے تاب ناک مستقبل کی ڈور جس طبقے کے ہاتھوں میں ہے وہی طالبِ علم عجیب ذہنی کسمپرسی میں مبتلا ہے۔ درس گاہوں کے بڑھتے ہوئے مسائل نے طالبِ علموں کو ذہنی خلفشار اور تربیت کی کمی نے اخلاقی بے راہ روی کا شکار بنا دیا ہے۔ کل تک جو چہرے علم کی روشنی سے دمکتے تھے آج محرومیوں کی تپش میں جل رہے ہیں۔ بقول شاعر

اُس کے ہاتھوں میں ہے بھرا سگریٹ
اس کے ہاتھوں میں ہے بھری بندوق

اور یہ مہلک ہتھیار جب سے طالبِ علموں کی قوّت بنے ہیں، اخلاقی سطح پر وہ کم زور پڑ گئے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن نے ایک جگہ لکھا تھا، ”اُن دنوں جوانی کے ہتھیار قلم اور زبان تھے۔ آج کا طالبِ علم تپنچہ چلاتا اور طمانچے لگاتا ہے۔“

بلاشبہ جب تک ہمارے طالب علموں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب کے ہتھیار تھے وہ نہ صرف طاقت ور بلکہ کام یاب بھی تھے اور اب وہ اتنے کم زور ہو چکے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر اشتعال میں آکراپنے اساتذہ کی تذلیل کر دیتے ہیں۔ اساتذہ پر تشدد کی خبریں‌ بھی ہم نے پڑھی ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ طالبِ علم اصولوں کی خلاف ورزی بھی خود ہی کرتے ہیں اور ٹوکنے پر شرمندہ ہونے کے بجائے مشتعل ہو جاتے ہیں۔ آئے دن اخبارات میں اس قسم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ استاد مرد ہو یا خاتون یکساں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ کراچی اور سندھ کی جامعات میں اساتذہ کو ہراساں کرنے، اُن پر دباؤ ڈالنے اور جسمانی تشدد کے افسوس ناک اور شرم ناک واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

ایسے میں اگر آج کا استاد افسردہ اور فکرمند ہے تو اپنے شاگردوں‌ کی خود سری، گستاخی، اور نافرمانی کے باوجود ان کے لیے نیک جذبات بھی رکھتا ہے۔ وہ شاگردوں سے اپنے سکھائے ہوئے الفاظ کی حرمت کی پاسبانی کا خواہش مند ہے اور جب ہی ان کے غیراخلاقی سلوک اور نافرمانی کو جھیل کر اپنی شفقت اور محبت کے ساتھ اُن پر امید افزا نگاہ کرتا ہے۔

وہ تو ہیں میرے ارادوں کی سپاہ
وہ تو جادوں میں ہیں میرے ہمراہ
میں نے کچھ حرف سکھائے ہیں انھیں
زیست کے رمز بتائے ہیں انھیں
(پروفیسر سحر اؔنصاری)

آج کے نوجوانوں اور طالب علموں کی اکثریت اپنے فرائض کی ادائیگی میں اتنی مخلص نہیں جتنا اُسے اپنے حقوق کی پائمالی کا دکھ مارے ڈالتا ہے۔ نتیجہ بغاوت کی صورت سامنے آتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ طالبِ علم خلوصِ نیت سے اپنے فرائض ادا کرے، اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے پوری کرے، اور ناانصافی کی صورت میں‌ اساتذہ کے ساتھ افہام و تفہیم کی فضا میں اس کا حل تلاش کرے۔

کیا آج کا طالبِ علم اتنا سمجھ دار اور اپنے اساتذہ کا ایسا تابع دار ہے کہ وہ ان کے یقین کا بھرم رکھنے میں کام یاب ہو جائے گا؟ یقیناً وہ ایسا کرسکتا ہے اگر اس رمز سے آشنا ہو جائے کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔

ایسا ادب جس کے طفیل بد بختی، خوش بختی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور وہ ادب جو تہذیبی قوت رکھتا ہے۔ وہ تہذیب جو دلوں کو جوڑنا ہی نہیں سکھاتی بلکہ انسانی تعلق کے استحکام میں وضع داری کے ساتھ اپنا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے طالبِ علم اس تہذیب کو اپنا شعار بنا لیں اور استاد اور شاگرد کے مابین مضبوط، خوش گوار تعلق پروان چڑھے اور اساتذہ کو وہ عزّت و احترام حاصل ہو جو ان کا حق ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں