The news is by your side.

وہ سب سے بڑی خوشی جو میں نے اپنی ماں کو دی!

پاکستان کی مشہور و معروف شخصیات سے شائستہ زریں ؔکا دل پذیر مکالمہ

خلیل جبران نے کہا تھا ”ماں سب کچھ ہے۔ تمام زخموں کا مرہم، کمزوریوں میں طاقت، اندھیرے میں روشنی کی کرن، محبت، ہمدردی، خلوص، وفا ایثار اور قربانی کا سرچشمہ۔“

بلا شبہ ماں اپنی اولاد کے لیے کائنات بھی ہے اور مسیحا بھی۔ اور ان اوصاف کی حامل ماں کا وجود اولاد کے لیے نعمت بھی ہے، غنیمت بھی۔ اپنی اولاد کی خوشی کی خاطرماں بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اولاد بھی ماں کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے اور اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔

اس سفر میں سب سے زیادہ اہم خود سے وابستہ ماں کی امیدوں اور خواہشات کی تکمیل ہے۔ اولاد سے ملنے والی خوشی چھوٹی ہو یا بڑی ماں کے لیے سوغات سے کم نہیں ہوتی۔ وہ اسے حرزِ جاں بنائے رکھتی ہے اور اپنی اولاد کے لیے دستِ دعا دراز رکھتی ہے۔ اپنے طور پر تو ماں کو خوشیاں دینے کی کوشش اولاد کرتی ہی رہتی ہے لیکن ایک خوشی وہ ہوتی ہے جو ہمیشہ کے لیے ماں کی تسکین اور سرور کا باعث بن جاتی ہے اور یادگار ثابت ہوتی ہے۔ یہی جاننے کے لیے ہم نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مشہور و معروف شخصیات سے رابطہ کیا کہ ”وہ کون سی سب سے بڑی خوشی ہے جو آپ نے اپنی ماں کو دی؟

افتخار عارف (دانشور، شاعر)
میں ہمیشہ اُن کے لیے خوشی کا باعث بنا رہا فرماں برداری میں۔ ایک ماں کے لیے اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی (ماہرِ تعلیم، شاعر)
ہم پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے امی کا مستقل قیام میرے ساتھ تھا۔ آخری ایام میں طویل عرصہ مستقل میرے ساتھ رہیں۔ وہ dementia میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ کبھی پہچان جاتی تھیں، کبھی بھول جاتی تھیں۔اپنے طور اُن کا بہت خیال رکھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پھر بھی ایک خلش سی ہے کہ حق ادا نہیں کر پایا۔ تسلی اس بات کی ہے کہ جو کچھ شخصیت بنی، نام بنا، مقام بنا وہ اُن کی تربیت اور دعاؤں کے طفیل ہے۔ میری باعزت شہرت اور مقبولیت اُن کو بہت خوشی دیتی تھی۔ بہت خوشی اور فخر سے گھر میں آنے والوں سے میرا ذکر کرتیں کہ پیرزادہ قاسم میرا بیٹا ہے۔ شاید یہی سب سے بڑی خوشی میں نے اپنی ماں کو دی۔

مہتاب اکبر راشدی (ماہرِ تعلیم، سیاست داں)
میں اپنی ماں کی آنکھوں کی زبان سمجھتی تھی۔ میں نے اُن کی آنکھوں کی تحریر پڑھ کر اُسی کے مطابق زندگی بسر کی۔ وہ مطمئن تھیں کہ ان کے کہے بغیر ہی ہم بہنیں اُن کے دل کی بات جان لیتی ہیں۔ جبھی تو ایسی کوئی بات نہیں کی جو اُنہیں گراں گزرے اور ایک ماں کے لیے اس سے بڑی خوشی کیا ہو سکتی ہے؟ جو بیٹی اسے دے۔

عقیل عباس جعفری (محقق، شاعر اور صحافی)
اُن کی زندگی میں کلاس میں فرسٹ آیا تھا تو وہ بہت خوش ہوئی تھیں۔ میں بارہ سال کا تھا جب اُن کا انتقال ہوا۔ وہ کہتی تھیں کہ میں اُنہیں حج کرواؤں گا۔ جب میں کسی قابل ہُوا تو میں نے اُن کا حج بدل کروایا۔ شاید وہ اس عمل سے خوش ہوئی ہوں۔

بہروز سبزواری (اداکار)
امی بہت خوش ہوتی تھیں جب میرا کوئی پروگرام، سیریل اور کردار ہِٹ ہوتا تھا۔ بس یہی خوشی دے سکا، ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ماں باپ کی خدمت ہی نہیں کر پائے۔

ڈاکٹر ہما بقائی (تجزیہ کار)
میرے خیال میں سب سے بڑی خوشی یہی دی ہے کہ اُن کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اُنھوں نے مجھ پر بھروسہ کیا تو میں نے بھی ہر وہ روک خود پر لگائی جس سے اُن کا بھروسہ قائم رہے۔ اب میری ماں اس دنیا میں نہیں لیکن کل کی طرح آج بھی میرا طرز عمل یہی ہے۔ اللہ کرے کہ اُن کی روح بھی میرے اس رویے سے خوش ہوتی ہو۔

پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ (سابق ڈین کلیۂ فنون و سائنس جامعہ کراچی، مصنف)
جب کراچی یونیورسٹی میں 1988ء میں میرا تقرر ہُوا تھا تو میری والدہ بہت خوش ہُوئی تھیں۔ اگر وہ حیات ہوتیں تو بہت خوش ہوتیں جب دو مرتبہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ستارۂ امتیاز کے لیے میرا نام دیا اور جب میں 22 گریڈ میں میریٹوریس پروفیسر بنی۔ اُن کو میری طرف سے ملنے والی سب سے بڑی خوشی یہی ہوتی کیونکہ پاکستان کی تمام جامعات میں شعبہ سماجی بہبود میں کوئی بھی 22 گریڈ کی پروفیسر نہیں۔

سمیع ثانی (ٹی وی آرٹسٹ)
میں نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ میری ذات سے اُنہیں کوئی دکھ نہ پہنچے اور الحمدُ للہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی رہا۔ ایک ماں کے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے کہ اُس کی اولاد اس کے لیے رنج کا نہیں بلکہ راحت کا باعث بنے۔

فصیح باری خان (ڈرامہ نگار)
میری امی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتی تھیں۔ میری امی نے ساری عمر ساڑھی ہی پہنی ہے جو اُن پر بہت سوٹ کرتی تھی۔ مجھے بہت اچھا لگتا تھا اپنی امی کے لیے ساڑھیاں خریدنا۔ میں جب بھی اُن کو ساڑھی دیا کرتا تھا تو اُن کے چہرے پر ایک چمک سی آجاتی تھی اور اُن کی اس خوشی کو دیکھ کر میرا دل خوشیوں سے بھر جاتا تھا۔

ڈاکٹر شائستہ لودھی ( آرٹسٹ، اینکر پرسن، ماہرِ امراضِ جلد)
میں کبھی بھی ڈاکٹر بننا نہیں چاہتی تھی۔ میری دل چسپی کامرس میں تھی۔ داخلے کے لیے میں کامرس کی قطار میں کھڑی تھی اور امی پری میڈیکل کی۔ امی کی خواہش پر میں نے میڈیکل میں داخلہ لے تو لیا لیکن میدیکل کی مشکل تعلیم کے دوران جتنا ٹارچر ہوتی، اس سے زیادہ میں اماں کو پریشان کرتی لیکن جب کمیشن کا امتحان پاس کیا تو احساس ہوا کہ امی کا فیصلہ درست تھا۔ میڈیا میں آنے کے بعد میں نے پریکٹس چھوڑ دی۔ کچھ عرصہ قبل دوبارہ شروع کی تو امی کو بہت خوشی ہوئی۔ گویا دوبارہ پریکٹس جاری رکھنا وہ سب سے بڑی خوشی ہے جو میں اماں کو دی۔

نادیہ حسین (ماڈل، ڈرامہ آرٹسٹ)
اُن کی اپنی آمدن کی صلاحیت جو کہ وہ میرے سیلون کے ذریعے کرتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ کوئی کام نہیں کر رہی تھیں۔ میرے والد کے چلے جانے کے بعد اُن کا کوئی ذریعۂ آمدن نہیں تھا۔ اب میرے سیلون سے اُن کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ مہینے کے خرچے بھی پورے ہو جاتے ہیں اور عزتِ نفس بھی مجروح نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں خود انحصاری اُن کے لیے بہت بڑی خوشی اور ریلیف ہے جو میں اُن کو دے سکی۔

ہما احمد تاجدار (اہلیہ تاجدار عادل)
ماں کے معاملے میں بیٹیاں بہت حساس ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی قدم اُٹھاتے اور کام کرتے ہوئے وہ اس بات کا خاص طور پرخیال رکھتی ہیں کہ اگر وہ اچھا کام کریں گی تو اُن کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ ماں کو بھی ملے گا اور کسی بھی قسم کی کوتاہی یا خراب رویے کی صورت میں ماں کی تربیت پر بھی حرف آئے گا۔ میں نے بھی بطورِ خاص اس بات کا خیال رکھا۔ جس سے میری امی خوش ہوتی ہیں۔ بنیادی طور پر میری امی کو میری بے لوث محبت کرنے کی عادت بہت خوشی دیتی ہے۔ جب میری اماں (ساس) بہت بیمار تھیں تب میں نے نہایت محبت اور لگن سے اُن کا خیال رکھا جس سے وہ بہت خوش ہوئیں اور مجھے بہت دُعائیں دیں۔ میری امی کو بھی میرے اس عمل سے بے حد خوشی ملی تھی کہ میں نے ماں اور ساس میں کبھی تفریق نہیں کی۔

ربیعہ اکرم ( براڈ کاسٹر، سابق ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان، کراچی مرکز)
امریکہ میں قیام کے دوران میں نے اُن (والدہ) کو چھے مہینے کے لیے بلوا لیا تھا، بچّے بہت چھوٹے تھے، بہت لمبا سفر طے کرنے کے باوجود میرے، اکرم اور بچّوں کے ساتھ وقت گزار کر سرشاری محسوس کی۔ وہ بہت خوش ہوئی تھیں کہ اس عمر میں تمہاری وجہ سے ہمیں امریکہ گھومنے کا موقع مل گیا۔ ہم اُن کو شکاگو اور کینیڈا بھی لے گئے۔ البتہ ماں کے ساتھ حج کر کے اُن کو سب سے بڑی خوشی دینے کی خواہش ایک حسرت بن کر رہ گئی۔

ڈاکٹر سطوت فرید (ماہر امراض جلد)
جہاں تک سب سے بڑی خوشی کی بات ہے تو وہ یہی ہے کہ امی کی حُکم عدولی کبھی نہیں کی۔ خاص کراپنی گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں اس طرح توازن برقرار رکھا کہ اپنے گھر کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور پیشہ ورانہ امور سے بھی غفلت نہیں برتی۔ میرا یہ طرزِ عمل ہمیشہ میری امی کے لیے خوشی اور طمانیت کا باعث بنا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں