The news is by your side.

گھر تو آخر اپنا ہے!

پاکستانی نوجوان بیرونِ ملک جانے کے آرزو مند کیوں؟

غربت اور تنگ دستی کو شکست دینے کے آرزو مند نوجوان اکثر سمندر کے راستے غیر قانونی اور غیر محفوظ سفر کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچنے کے لیے جو راستہ اختیار کرتے ہیں، اس میں نہ تو جان و مال کی حفاظت کا کوئی وعدہ ان سے کیا جاتا ہے اور نہ ہی کام یاب سفر کی ضمانت دی جاتی ہے۔ یہ لوگ بالخصوص نوجوان اس کے باوجود سمندر کی بے رحم موجوں، میدانی علاقوں کی سختی، پہاڑی راستوں کی مشکلات قبول کرنے اور صحرا کی جلتی ہوئی ریت پر چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

معمولی نوکری اور کسی بھی ذریعۂ روزگار سے جڑ کر اپنے کنبے کی کفالت کرنے کی خواہش میں‌ اکثر لوگ سفر کے دوران جن خطروں کا سامنا کرتے ہیں، انھوں‌ نے کبھی اس کا تصوّر بھی نہیں‌ کیا ہوتا۔ اس وقت عالمی میڈیا پر اس تباہ شدہ کشتی کا ذکر ہو رہا ہے جس کے 200 کے قریب مسافروں میں 20 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی جو لنگر انداز ہونے کی کوشش کے دوران تباہ ہو گئی۔ حادثہ اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں پیش آیا جس میں چار پاکستانی بھی موت کے منہ میں چلے گئے۔

اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے کے خواہش مند پاکستانی نوجوانوں سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو ان کی اکثریت کو یہاں اپنا مستقبل خطرے میں نظر آتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بہتر اور معیاری طرزِ زندگی، خوش حالی اور محفوظ مستقبل چاہیے تو انھیں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں جا کر قسمت آزمانا چاہیے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں، زندگی کتنی ہی دشوار کیوں نہ ہو، انھیں اپنے وطن میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ تحریر اسی خیال کو تقویت دیتی ہے۔

تلاشِ زر میں جواں کوچ کرتے جاتے تھے
کمالؔ گاؤں کا سب حُسن مرتا جاتا تھا
(حسن اکبر کمالؔ)

گاؤں کے نوجوانوں میں شہر میں بسنے اور پاکستان کے شہری نوجوانوں میں دیارِ غیر میں آباد ہونے کی آرزو روز بہ روز شدت اختیارکرتی جارہی ہے۔ نوجوانوں کی کیا بات ہے، اب تو نوعمر بھی اس جذبہ جنون میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

پوت کے پاؤں پالنے میں دیکھے جاتے ہیں۔ زوہیب ہی کو لے لیجیے۔ ابھی محض بارہ برس کا ہے، لیکن چند ہفتوں سے ایک ہی رٹ لگا ہے، مجھے پاکستان میں نہیں رہنا۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ ایک ہی جست میں کسی دوسرے ملک پہنچ جائے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ خیالات اور نظریات میں بھی پختگی آتی جارہی ہے۔ اب تو وہ صاف صاف کہتا ہے کہ ”ناکام اسٹیٹ کے ناکام لوگ۔“ اُس کا کہنا ہے کہ ہر وقت کے ہنگامے، ہڑتالیں، پُرتشدّد واقعات، اسکول کی بڑھتی ہوئی فیسیں، بجلی ہوتی نہیں گرمی میں پڑے سڑتے رہو، پانی کی بوند بوند کو ترسو، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، پاکستان میں رکھا ہی کیا ہے؟ اس سے بہتر ہے کہ ہم فارن میں جا کر رہیں۔“

دیارِ غیر میں بسنے کے خواہش مندوں میں اکثریت اپنے حالات سے دل برداشتہ نوجوانوں کی ہے۔ ان کی سوچیں منفی رخ اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ فہیم بھی ان ہی میں سے ایک ہے جس نے بڑی لگن اور محنت سے تعلیم کے ساتھ ساتھ فوٹو گرافی کا کورس بھی کیا اور ایسی کام یابی حاصل کی کہ جب ملازمت کی تو اپنے ہنر کی بدولت بہترین کارکردگی کا ایوارڈ بھی حاصل کیا لیکن جب وہ دفتر میں ریشہ دوانیوں کا شکار ہُوا تو اس کا جی پڑھائی سے بھی اچاٹ ہو گیا اور پاکستان سے بھی۔ اُسے اپنے وطن سے بڑے گلِے ہیں کہ ”یہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، حق دار محروم اور لٹیرے محفوظ اور مالا مال بھی، یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں، باہر جاؤ دیکھو کیسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہاں جس محنت اور ہنر پر سسک سسک کر ذلت سے چار پیسے ہاتھ آتے ہیں باہر جا کر یہ کام کرو تو لاکھوں کما لو، یہاں تو یہ حال ہے کہ ٹیلنٹ ہے تو کام نہیں، رشوت دے دو تو وارے نیارے، ورنہ آہ ر ے پیارے۔“

ناز بچپن ہی سے انقلابی ذہن رکھتی ہے۔ اُس کا تعلق نوجوان نسل کی ان لڑکیوں کے گروہ سے ہے جو باہرجا کر پڑھنا، کمانا اور وہاں بسنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے ان کی نظر میں آئیڈیل جگہ دبئی ہے۔ پاکستان میں تو لڑکیاں اپنی مرضی سے سانس تک نہیں لے سکتیں۔“

یہ ہمارے وطن کے چند نوجوانوں کے خیالات تھے جن کے اندر بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی نے ان منفی سوچوں کو جنم دیا ہے۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ طبقاتی کشمکش سونے پر سہاگہ ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی منظر نامے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کے تحت نوجوان تو کیا بزرگ بھی بے یقینی اور عدم اطمینان کا شکار نظر آرہے ہیں۔

ناصرہ خاتون کو اپنے محب وطن لڑکوں سے بہت شکایت ہے جو اُن کی شدید خواہش کے باوجود بھی باہر نہیں جاتے۔ اُن کا خیال ہے کہ باہر جا کر وہ گھر کے معاشی حالات بھی سدھار دیں گے اور اپنا مستقبل بھی۔ اکثر گلہ کرتی ہیں؛ ہمارے لڑکے بھی عجیب ہیں، اسٹیٹس کا خیال ہی نہیں۔ آج ہر دوسرا پاکستانی نوجوان باہر جانے کے خواب دیکھ رہا ہے، انھیں پروا نہیں۔

فرہاد صاحب اکثر خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے۔ پاکستان میں آئے دن فسادات ہوتے رہتے ہیں، میرا ضرغام کسی کا نشانہ نہ بن جائے۔ میں تو مستقل کوششوں میں لگا ہوا ہوں کہ کسی طرح اُسے امریکہ بھیج دوں، زندگی تو محفوظ رہے گی۔“ اب فرہاد صاحب کو کون سمجھائے کہ موت تو بَرحق ہے۔ موت کا دروازہ ہر وقت اور ہر جگہ کھلا رہتا ہے۔ حادثات اور نسلی فسادات تو امریکہ میں بھی ہوتے ہیں۔

ادھر ہمارے سیاسی قائدین بھی خوب ہیں۔ گروہ بندی کا شکار اور آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔ وطن کے ساتھ وہ مخلص نہیں نظر آتے۔ وطن کے مفاد سے زیادہ اُنھیں اپنا مفاد عزیز ہے۔ گفتار کے ان غازیوں نے نوجوانوں میں نہ صرف بغاوت کو جنم دیا بلکہ اپنے منافقانہ رویے سے وطن دشمنی کو بھی خوب ہوا دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی نوجوان اپنے حال سے غیر مطمئن، مستقبل سے ناامید ہو کر پاکستان میں رہنے کے بجائے دیارِ غیر میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں پاکستان میں رہنا سراسر خسارے کا سودا ہے اور کاروبارِ حیات میں منافع کے آرزو مند نوجوانوں کے لیے یہ نقصان جیتے جی مر جانے کے مترادف ہے۔ ناآسودہ خواہشات، بڑھتے ہوئے مسائل اور محدود وسائل نے ان نوجوانوں کی وحشتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان کی جنوں خیزی انھیں اپنے ہر مسئلے کا حل ”باہر“ دکھاتی ہے۔ اَن دیکھی دنیا کی ظاہری چکا چوند نے ان کی نگاہیں خیرہ کر دی ہیں۔ یہ نوجوان نہیں جانتے کہ

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

ان نوجواںوں کا خیال شاید یہ ہے کہ بیرونِ ملک ”مایا دیوی“ پاکستانی نوجوانوں کی منتظر ہے جس کے چرن چھوتے ہی ان کا خالی کاسہ پونڈ، ڈالراور ریال سے بھر جائے گا یا ان کی تمام تر آزمائشیں آسائشوں میں تبدیل ہو جائیں گی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نوجوانوں کی منفی سوچوں کا رخ موڑ کر انھیں مثبت سوچ کا تحفہ دیں۔ ایک منتشر سماج کے نوجوانوں کا یہ رویہ حیرت انگیز نہیں۔ قصور بڑوں کا بھی ہے جو اپنا قبلہ درست کریں تو نوجوانوں کی درست سمت میں راہ نمائی بھی کرسکیں گے۔

آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس میں قائد اعظم نے نوجوانوں اور طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”آپ کی طالب علمی کے زمانے میں آپ پر قوم کا حق، والدین کا حق اور خود آپ کا جو حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں جہاں آپ کا سب سے پہلا فرض تحصیلِ علم میں جدو جہد کرنا ہے، وہاں ساتھ ہی ساتھ آپ کو نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ساری دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات کا بھی برابر جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور اُن سے با خبر رہنا چاہیے۔“

ہر بات کا الزام بزرگوں اور حکومت کو دینا بھی درست نہیں۔ ہماری نوجوان نسل باشعور ہے، بُرے بھلے کی تمیز رکھتی ہے، ایک مسئلہ یہ ہے کہ تلخ حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتی ہے۔ اس نسل کا الَمیہ یہ ہے کہ خود توقعات پر پورا اُترنے سے زیادہ اوروں سے توقعات وابستہ رکھتی ہے۔ بیرونِ ملک بھی مسائل کا انبار ہے لیکن شاید ہمارا میڈیا بھی تصویر کا ایک رُخ پیش کر کے ان نوجوانوں کے خوابوں میں رنگ بھر دیتا ہے۔ انھوں نے باہر کے صرف روشن پہلو دیکھے ہیں تاریک گوشے کسی نے بے نقاب ہی نہیں کیے۔ یہ نوجوان نہیں جانتے کہ آزادی کتنی انمول نعمت ہے، محض نمود و نمائش کے ساتھ جشن آزادی منانے سے کیا حاصل؟ جب تک آزادی کی اصل روح سے آشنا نہ ہوں گے آزادی کا لُطف کہاں؟ مانا نوجوان نسل پر بعض پابندیاں بہت گراں گزرتی ہیں لیکن اگر وہ دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ لیں تو کئی معاملات میں اپنے وطن پر فخر کریں گے۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی بھی ملک میں دوسرے تیسرے درجے کے شہری کی ذلت آمیز زندگی سے اپنے وطن میں اپنی جدوجہد کرتے ہوئے باعزت زندگی گزارنا بہت بہتر ہے۔

ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کا زمانہ طالب علمی اس لحاظ سے بہت آسودہ ہوتا ہے کہ اُن کے تمام اخراجات کی ذمہ داری والدین پرعائد ہوتی ہے جب کہ باہر خاص کر مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے وہاں کے اکثر شہری بھی ملازمت کر کے اپنی فیسیں ادا کرتے ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ اپنے ملک میں ایک چمچ دھونا جن لڑکوں کو سخت بُرا لگتا ہے، وہ باہر کے ممالک میں ہنسی خوشی بیرا گیری بھی کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم سے لے کر ملازمت تک کے مراحل بسا اوقات رشوت اور سفارش کے بغیر طے نہیں ہوتے لیکن اگر نوجوان اس معاملے میں متحد ہو جائیں کہ ہم اپنے جائز مقصد کے حصول کے لیے نہ رشوت دیں گے اور نہ ہی سفارش کی سیڑھی استعمال کریں گے تو پھر رشوت اور سفارش کا سلسلہ بھی دم توڑ جائے گا۔ سسٹم کی اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں، جنھیں نوجوان نسل کو تدبر اور تحمل سے دور کر کے اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ بات محض بیرونِ ملک حُصولِ تعلیم ہی کی نہیں ہے، اگر باہر کے ممالک میں ملازمت کرنا ہو تب بھی جتنی مشقت وہاں اٹھانی پڑتی ہے اس کا عشرعشیر بھی یہاں نہیں کرنا پڑتا۔

کیا ہی اچھا ہو کہ بیرونِ ملک، نامانوس سرزمین پر اجنبیوں کے درمیان جانے کے لیے پَر تولنے والے ہمارے بچے اور نوجوان یہ سمجھ لیں کہ اپنے گھر میں جو سکون آرام اور راحت انھیں نصیب ہے وہ اور کہیں نہیں مل سکتی۔ اپنے گھر میں آسائشیں خواہ وہ مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہوں، اُن کا لُطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔

اپنے ذہن کو باہر کی قید سے رہائی دے دیں۔ اس یقین اور فخر کے ساتھ اپنے آزاد ملک میں رہیں کہ آپ معمارِ قوم ہیں۔ پاکستان آپ سے ہے اور آپ پاکستان سے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں