The news is by your side.

عالمی یومِ خواتین: زندگی جن سے وابستہ ہے…

کہنے کو تو عورت صنفِ نازک ہے لیکن یہی صنفِ نازک وقت پڑے تو چٹان سے بھی ٹکرا جاتی ہے اور بڑی سے بڑی مشکل کےآگے ڈٹ جاتی ہے ۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب صنفِ نازک نے اپنے عزم اور حوصلے کو آزماتے ہوئے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔

آج دنیا بھر میں خواتین کا دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد کسی بھی معاشرے میں عورتوں کی اہمیت اور ان کے حقوق کے ساتھ گھر سے لے کر سماج تک اور کام کی جگہوں پر ان کا تحفظ یقینی بنانا اور ترقی و خوشحالی کے سفر میں ان کے کردار کا اعتراف کرنا بھی ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر پہلی بار 8 مارچ 1975ء کو عالمی یومِ خواتین مناتے ہوئے ہمارے معاشرے میں بھی خواتین کے مقام اور ان کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا تھا۔

خواتین کی جدوجہد اور قربانی کی ایک مثال 1908ء میں امریکہ میں محنت کش خواتین کی وہ ہڑتال ہے جو کم معاوضہ اور خواتین کو حقِ رائے دہی سے محروم رکھنے کے خلاف کی گئی تھی۔ محض تین برس کے مختصر عرصے میں نہ صرف اس احتجاج کی گونج اقوامِ متحدہ میں سنی گئی بلکہ 1911ء میں پہلی مرتبہ اقوامِ متحدہ کی منظوری کے ساتھ عالمی سطح پر یومِ خواتین منانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ وہ وقت بھی آیا کہ امریکہ میں خواتین نے نہ صرف اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا بلکہ سرکاری سطح پر کئی کلیدی عہدوں پر فائز ہوئیں اور معاشرے میں اپنی اہمیت کو منوانے میں کام یاب ہو گئیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو اس میں گھر کا سربراہ مرد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے گھر کی وزیرِاعظم ہماری شریکِ حیات ہیں تو یہ اعزاز خاتونِ خانہ کے حصے میں محض گھر کے انتظامی اُمور خوش اسلوبی سے سنبھالنے کی بنیاد پر نہیں آتا۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ان کو جہدِ مسلسل کر کے خود کو تسلیم کروانا پڑتا ہے اور اس کی بِنا ان کے والدین کے گھر سے پڑ جاتی ہے جو بیٹی کی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

راشدُ الخیری“ اپنے ناول ”صبح زندگی“ میں اس کے مرکزی کردار ”نسیمہ“ کی رخصتی کے باب میں رقم طراز ہیں:

”میں تم کو ایک زبردست امتحان میں بھیجتی ہوں اور ایک اجنبی شخص کے ہاتھ میں تمہارا ہاتھ اس امید پر دیتی ہہوں کہ تم اپنی خدمت گزاری اور سلیقہ شعاری سے اس کو رضامند رکھو گی، یہ وہ شخص ہے جس کے اوپر تمہاری زندگی کا دار و مدار ہے اور جس کے ساتھ عمر بسر کرنی ہے۔ تم اور وہ، دونوں مل کر دنیا میں ایک آدمی سمجھے جاؤ گے، کہنے کو دو مگر اصل میں ایک۔ ہر رنج میں دونوں شریک اور ہر خوشی میں دونوں ساتھی۔“

بلاشبہ زندگی جن سے وابستہ ہے اگر اُنہیں خود سے بڑھ کر چاہا جائے، عزت اور اہمیت دی جائے تو وہ خود بخود ہمارے بن جاتے ہیں، شرط خلوصِ نیت ہے۔

گھر کو گھر بنانے میں زوجین کی باہمی دل چسپی اور کاوشیں شامل ہوتی ہیں اور یہ بھی بہت بڑی سچائی ہے کہ اگر شوہر تعاون نہ کرے، شریکِ حیات کا ساتھ نہ دے تو عورت خانگی امور اور باہر کے معاملات میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ شریکِ حیات کے بھرپور ساتھ سے نہ صرف عورت کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں بلکہ اپنا شخصی اعتماد بحال ہوتے دیکھ کر وہ نہ صرف خود مطمئن ہو جاتی ہیں بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ گھر اور ”گھر والے“ پر خصوصی توجہ بھی دیتی ہے اور اپنے ہمسفر کو پرسکون زندگی کی سوغات بھی دیتی ہے۔ زوجین کی جانب سے ایک دوسرے کو دی جانے والی یہ سچی خوشی ازدواجی بندھن کے استحکام کی ضمانت بن جاتی ہے۔ اگر شوہر گھر اور معاشرے میں اپنی شریکِ حیات کی کامیابی کے حصے دار بنتے ہیں تو اُن کی بیگمات بھی اپنی زندگی کی کامیابی کے شراکت دار کو قلبی و ذہنی سکون فراہم کر کے گھریلو ماحول کو خوشگوار بنا دیتی ہیں۔ گویا تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس طرح کامیاب اور پرسکون ازدواجی زندگی میں فریقین کا مثبت کردار واضح ہے۔

عالمی یومِ خواتین پر یہ خصوصی رپورٹ آپ کو اپنے معاشرے کی ان عورتوں کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع دے گی جو ایک خوش گوار اور کامیاب زندگی بسر کررہی ہیں۔ہم نے ان خواتین سے دریافت کیا کہ آپ کے شریکِ حیات کا آپ کی گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں کیا مثبت کردار رہا اور آپ نے کیسے گھر کو سنبھالا اورشوہر کی خوشی اور رضامندی کو کس طرح اہمیت دی؟

لیلیٰ زبیری (آرٹسٹ)

کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر عورت کی کامیابی کے پیچھے بھی ایک مرد ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر شوہر اپنی بیوی کی حمایت نہ کرے، اس کی حوصلہ افزائی نہ کرے تو بیوی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں کوئی کام کرے اور کامیابی حاصل کرسکے۔ اس معاملے میں، مَیں بہت خوش قسمت ہوں، میرے شوہر نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی، تعاون کیا اور کبھی بھی مجھے ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اگر گھر پر نہیں ہوں تو بہت مسئلہ ہو رہا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پروفیشن پر توجہ مرکوز کرسکی اور کامیاب ہوئی۔ جب میں نے فیلڈ میں قدم رکھا تو اسی وقت میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے گھر کو اپنی فیملی کو ترجیح دوں گی پھر اس کے بعد میرا پروفیشن آئے گا۔ پوری طرح سے کوشش کی ہے کہ میرا گھر نظر انداز نہ ہو اور میری ضرورت ہو گھر کے لیے وقت نکالوں، جہاں جانا چاہیں فیملی کے ساتھ جاؤں۔ اکثر ہم لوگ مووی ساتھ دیکھتے ہیں، ڈنر ساتھ کرتے ہیں، میں خاص طور پر اُن کے لیے وقت نکالتی ہوں، تو ساری ٹائم مینجمنٹ کی بات ہوتی ہے۔ اس طرح طارق میری کامیابی میں اور میں اُن کی زندگی اور گھر کے ماحول کو پرسکون رکھنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

پروین اکبر (آرٹسٹ)

شریکِ حیات کی مرضی نہ ہوتی تو آج میں گھر میں بیٹھی ہوتی۔ باقی کام کے علاوہ جو بھی وقت ہے وہ گھر داری، شوہر اور بچوں کے لیے ہے الحمدُللہ۔

غزالہ فصیح (صحافی)

میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورت کی کامیابی میں گھر کے مرد والد، بھائی اور جب وہ اپنے دوسرے گھر چلی جاتی ہے تو شوہر کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میرے والد صاحب نے مجھے کسی قابل بنایا، میری صلاحیتوں کو پروان چڑھایا، میرے بھائیوں کا تعاون اور پیار شامل رہا، اسی طرح جب میں اپنے گھر آئی تو میرے سسر صاحب نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ اسی طرح زندگی میں آگے بڑھنے میں میرے شوہر نے ہمیشہ میرے ساتھ تعاون کیا۔ کئی معاملات ایسے تھے جیسے امریکہ کے وزٹ کے لیے جب میرا انتخاب ہوا تو میں اس موقع پر ڈگمگا رہی تھی۔ مجھے خیال آرہا تھا کہ بچوں کو چھوڑ کر جانا ہوگا، پیچھے گھر کا کیا ہوگا۔ لیکن اس موقع پر شوہر میرا مضبوط سہارا بنے اور میرے ساتھ کھڑے رہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کو ایک موقع ملا ہے، اتنے سارے صحافیوں میں سے آپ کا انتخاب ہوا ہے، آپ ضرور جائیں۔ گھر کی فکر نہ کریں، ہم مل کر کر لیں گے۔ اس طرح سے میں زندگی کے معاملات آگے بڑھا پائی۔ شوہر کی زندگی پرسکون بنانے کا مطلب ہے، گھر کا سکون برقرار رکھنا، ان کو توقع ہوتی ہے کہ وہ باہر کی ساری اُلجھنیں، پریشانیاں گھر میں آکر بھول جائیں اور گھر میں اُن کو خوشگوار ماحول ملے۔ یہ اکثر ایک چیلنج ہوتا ہے کیونکہ گھر میں بھی بہرحال بہت سارے مسئلے مسائل ہوتے ہیں جو خاتونِ خانہ کو دیکھنے ہوتے ہیں۔ ان سے کیسے نمٹنا ہے اور کیا کرنا ہے، ان کا اثر ایک باشعور اور سمجھ دار عورت اپنے شوہر پر ایک دم نہیں پڑنے دیتی۔ ان کو پریشان نہیں کرتی۔ میں بھی کوشش کرتی رہی ہوں کہ گھر کو اس طریقے سے سنبھال سکوں۔

پروین سعید (بانی کھانا گھر)

ایک عورت کی زندگی میں اس کے شریکِ حیات کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ وہ اگر ساتھ دے تو عورت ہر میدان میں کامیاب ہوتی ہے۔ میرے شوہر (مرحوم خالد سعید) نے میری کامیابی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ کھانا گھر کا جب آغاز کیا تو دونوں کی رضامندی شامل تھی، انہوں نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیا۔ آج جہاں میں کھڑی ہوں، ان ہی کی وجہ سے ہوں۔ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، میرا خیال رکھا اور ہر مشکل میں ساتھ دیا۔ جب بیوی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھ لیتی ہے، یہ جان لیتی ہے کہ وہ کس طرح کی زندگی چاہتے ہیں۔ ان کے مزاج کے مطابق چلتی ہے تو زندگی آسان بھی ہوتی اور پرسکون بھی۔

نزہت اصغر (مدیر ماہنامہ پاکیزہ ڈائجسٹ)

جہاں تک میری کامیابی کا تعلق ہے تو اس میں میرے شوہر کا مثبت کردار 80 فیصد ضرور ہے، کیونکہ اگر وہ قطعی طور پر منع کر دیتے تو میں ہرگز ضد نہیں کرتی۔ میں نے گھر اور بچوں کی ذمہ داریاں بہ احسن نبھائیں اور سسرالی رشتہ داریاں بھی۔ یوں شوہر کے دل اور گھر میں مقام بنایا۔ ہر صورت اُن کی عزت، وقار اور بھروسے کو مقدم جانا۔ یوں ذہنی ہم آہنگی سے یہاں تک پہنچی الحمدُللہ۔ شوہر کی خوشی اور ان کو ذہنی طور پر پُرسکون رکھنا ہر بیوی کا فرض ہے۔ اسی طرح شوہر بیوی کے حقوق پورے کر کے اسے خوش اور مطمئن رکھ سکتا ہے۔ بے جا مطالبات منوانا، بے ہنگم خواہشات کے پیچھے بھاگنا اور مقابلے بازی کی فضا آپ کو ہر گز سکون سے نہیں رہنے دیتی بلکہ بے چینی میں مبتلا رکھتی ہے اور اس طرح گھر پر اور بچوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ میرے in laws نے بھی ماشاء اللہ میرا پورا ساتھ دیا۔ گھر، محبت کے ساتھ ساتھ سمجھداری، درگزر، مروت اور ایک دوسرے کے ادب اور احترامِ رائے سے ہی بنتے ہیں۔

ریحانہ راشد (معلمہ)

کسی بھی لڑکی کی کامیابی کا آغاز تو ماں باپ ہی سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد شریکِ حیات کا کردار سامنے آتا ہے۔ میں معلمہ تھی، میرے شوہر نے بخوشی مجھے اجازت دی ملازمت جاری رکھنے کی، دنیاوی معاملات میں، اور اگر مجھے کہیں جانا پڑتا تھا تو گھر کے کام میں بھرپور ساتھ دیا۔ شاید رشتے اسی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ غیر ضروری پابندی کبھی نہیں لگائی، ہاں یہ ضرور کہا کہ جہاں بھی جارہی ہیں بتا کر جائیں اور یہ اچھی بات تھی۔ اپنے بچوں کی پرورش میں میرا ساتھ دیا، بچوں کی تعلیم کے معاملے میں مجھے مکمل آزادی دی۔ بچوں کو کہاں داخلہ دلوانا ہے، کس طرح ان کی دیکھ بھال کرنی ہے، میرے شریکِ حیات کے مجھ پر اسی اعتماد نے بہت کامیاب فیصلے مجھ سے کروائے۔ میں نے ان کی زندگی پُرسکون بنانے کے لیے ہمیشہ یہ کیا کہ عام بیویوں کی طرح ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی، جاسوسی یا کسی معاملے میں کھوج نہیں کی، یہی ان کا انداز رہا، اور ہم دونوں نے ایک دوسرے پر اعتبار کیا۔

شگفتہ فرحت (سماجی کارکن)

میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ساتھ ساتھ چلیں تو بہت پرسکون زندگی گزر جاتی ہے۔ میرے شوہر اویس ادیب انصاری نے میرے ساتھ بہت زیادہ تعاون کیا، میرا بہت خیال رکھا، میری سرگرمیوں سے متعلق جتنے بھی باہر کے کام ہوتے تمام تر اپنے ہاتھ میں رکھ کر میرے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور مشکلات اور پریشانیاں دور کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسی طرح میں اپنے شوہر کے آرام و سکون کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہوں، گھر سے باہر ان کے کاموں میں حائل نہیں ہوتی اور ان کے مشاغل اور باہر مصروفیات میں جو تعاون کر سکتی ہوں، وہ کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں۔

سروش چغتائی (موٹیویٹر امریکی ٹیلیویژن نیٹ ورک شو)

ایک شادی شدہ عورت کی کامیابی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ کیسی بیوی اور کیسی ماں ہے اور ایک اچھی ماں اور ایک اچھی بیوی بنانے میں میرے شوہر نے میرا ہر طرح ساتھ دیا۔ مجھ کو ہر وہ چیز فراہم کی جو مجھے گھر میں اپنا یہ رول نبھانے میں مدد دیتی اور کسی مشکل میں مجھے آسانی فراہم کرتی اور میرے کام آسکتی تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے کبھی ماں باپ کے گھر میں بھی بے جا فرمائشیں کرنے کی عادت نہیں رہی۔ مجھے ہمیشہ یقین رہا کہ کہ جو میری قسمت میں ہے وہ مجھے ملے گا اور میری یہ عادت اُن کے لیے ہمیشہ سکونِ قلب کا باعث رہی۔

سیما عامر (بیوٹیشن)

جب میں ٹی وی یا ریڈیو کے پروگرامز کے لیے جاتی ہوں یا کوئی ایسا کام کرتی ہوں جو میری شہرت بڑھنے کا سبب بنے گا تو اس کے لیے میں ان سے پوچھتی ضرور ہوں اور ہمیشہ جواب ملا کیوں نہیں ضرور ضرور۔ میں نے پارلر چھوٹی سطح سے شروع کیا تھا، اللہ کے فضل سے بڑھتا گیا اس کی شاخیں بھی بنیں تو اس میں بھی ہمیشہ میں نے اُن سے اجازت لے کر کام کیا اور کوشش کی کہ اُن کو محسوس نہ ہو کہ میں خود آگے بڑھ رہی ہوں بلکہ اُن کو یہ پتہ چلے کہ اپنے خاندان کی بہتری اور بچوں کو اچھا مستقبل دینے کے لیے کام بڑھا رہی ہوں۔ میرے شریکِ حیات نے ہمیشہ مجھے ہمت دی، مجھ پر بھروسہ کیا اور کبھی مجھے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ جو کچھ میں چاہتی ہوں اس میں ان سے جس حد تک مدد ہو سکتی ہے کرتے ہیں۔ میں نے یہ کوشش کی کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔ گھر کا وقت گھر کا رہے۔ میرے پارلر کے اوقات ہمیشہ وہ ہوتے تھے جب میرے بچے اور شوہر گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ میں نے کبھی رات نو بجے تک کام نہیں کیا۔ عامر اگر سات بجے آجاتے تھے تو میرا پارلر بھی سات بجے بند ہو جاتا تھا۔ الحمدُللہ زندگی کو اور گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے میں ہم دونوں کی کوشش شامل ہے۔

شہلا شاہد (پروفیشنل ٹرینر بینکر)

میرے شوہر شاہد نے مجھ سے ہر قدم پر بھرپور تعاون کیا۔ ہم دونوں ایک ہی شعبے میں ہیں، اس لیے ذہنی ہم آہنگی بہت اچھی ہے۔ جب میں بزنس ہیڈ آفس میں تھی تو اکثر مجھے گھر آتے آتے رات کے نو یا دس بج جاتے لیکن میرے شوہر نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اُنہیں میرے پڑھائی کے شوق کا پتہ تھا لہٰذا اس میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ میں نے ایم بی اے شادی کے بعد کیا۔ خود مجھے سینٹر چھوڑنے جاتے تھے بلکہ میرے لیے ناشتہ بھی تیار کرتے تھے کہ میں بغیر ناشتے کے نہ جاؤں۔

فائقہ فرحان (خاتونِ خانہ)

میرے لیے کسی بھی رشتے کی کامیابی کے لیے دونوں ہی فریقین کا کردار اہم ہے۔ اگر میں اپنے گھر میں کامیاب ہوں تو یقیناً اس کا سہرا میرے شریکِ سفر کے سر ضرور جاتا ہے۔ اُن کا دیا گیا اعتماد، بھروسہ اور محبت مجھے ہر مقام پر سرخرو کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اُن کی خوشی اور رضا حاصل کرنے کے لیے میں بھرپور کوشش کرتی ہوں، تحمل، میانہ روی اور رشتے کی عزت کے ساتھ زندگی بسر کی جائے تو شوہر زیادہ بہتر طریقے سے اور پرسکون رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے۔ ایک بات اور تمام معاملات میں مشاورت کی جائے تو ایک کامیاب زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

حنا عمران (ٹی وی پروڈیوسر)

جی ہاں میری کامیابی میں میرے شریکِ حیات کا بہت دخل ہے۔ کیونکہ اگر یہ شادی کے بعد مجھے اجازت نہیں دیتے تو میں اپنی ملازمت جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ شادی سے پہلے ہی یہ خواتین کو بااختیار بنانے کے بہت بڑے حامی تھے۔ اپنی بہنوں کی بھی ملازمت کے سلسلے میں بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے اور شادی کے بعد انہوں نے میری بھی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی وجہ سے میں اپنی ملازمت جاری رکھ سکی۔ زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے ہم دونوں نے اپنا کردار نبھایا ہے، گھریلو زندگی میں ہم اپنے کاموں کو مل جل کر انجام دیتے ہیں اور پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔

انعم فیاض (ٹی وی آرٹسٹ)

میری کامیابی میں میرے شوہر کا بہت اہم کردار رہا۔ شادی سے پہلے بھی ہر پروجیکٹ ان کے ساتھ ڈسکس کرتی تھی اور شادی کے بعد بھی۔ انہوں نے اسکرپٹ پڑھ کر مشورہ دینے سے پروڈکشن ہاؤس کے تمام معالات تک میرا بھرپور ساتھ دیا۔ اس طرح مجھے تحفظ کا احساس بھی ہوتا۔ جب مجھے صبح شوٹ پر جانا ہوتا تو سالار کو بھی دیکھتے۔ اسد اگر اس طرح میرے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو شادی کے بعد کام کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں تھا۔ میں نے بھی کوشش کی کہ عام بیوی نہ بنوں۔اگر میں اُن سے سوال کروں، شکایتیں کروں تو یہ بھی بیزار آجائیں گے۔ بچے کی وجہ سے رات رات بھر جاگنے سے ٹینشن ہو جاتی ہے لیکن جب یہ تھکے ہارے آتے ہیں تو میں ان سے کوئی بھی پریشانی شیئر نہیں کرتی، اچھا وقت گزارتی ہوں، بہت مطالبات نہیں کرتی، ان سے کہتی ہوں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے اور سفر کرنے کا موقع ملے تو ضرور کریں۔ ہم دونوں لازمی ایک دوسرے کو space دیتے ہیں۔ اسد کہتے ہیں کہ گھر آکر سکون ملتا ہے کہ مجھے غصہ کرنے اور شکایتیں کرنے والی بیوی نہیں ملی۔

اسماء حسین (آر جے. ایف ایم ریڈیو چینل)

میرے شوہر مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، یہی میری کامیابی کی وجہ ہے۔ اور اُن کی زندگی یوں مطمئن اور پُرسکون ہے کہ میں اُن کے بھروسے اور اعتماد پر پوری اُترتی ہوں۔

عائشہ عروج علی (ماہرِ غذائیت)

جب میری شادی ہوئی تو میں بی ایس کی طالبہ تھی۔ اس کے دو سال رہ گئے تھے۔ شادی کے دنوں میں میرے فائنل امتحان ہو رہے تھے۔ اس وقت میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا اور پھر میری تعلیم جاری رکھنے اور کامیابی میں سب سے اہم کردار ان ہی کا ہے۔ اسی عرصہ میں میرے بیٹے کی ولادت بھی ہوئی، یہ سب manage کرنا بہت مشکل تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا، اور میں نے اپنی پڑھائی عافیت کے ساتھ مکمل کی۔ انہوں نے میرے امی ابو سے شادی کے وقت وعدہ کیا تھا کہ میرا ہمیشہ ساتھ دیں گے اور میری پڑھائی مکمل کروائیں گے تو انہوں نے اپنا یہ وعدہ بخوبی نبھایا۔ میاں بیوی کا رشتہ جہاں بہت نازک ہوتا ہے وہیں مضبوط بھی ہوتا ہے۔ اس میں کتنی ہی دھوپ چھاؤں آئے ایک دوسرے کے بغیر گزارا بھی نہیں ہوتا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھ کر اس تعلق کو مضبوط بناتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہوں۔ وقت پر ان کے سارے کام کرتی ہوں۔

ماہ وش اختر(شیف/ وی لاگر)

میری کامیابی میں میرے شریکِ حیات کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے بڑی بات وہ روایتی مردوں کی طرح شک نہیں کرتے، میرے کام کی نوعیت کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ میں اپنی حدود اور اپنے اختیار سے بخوبی واقف ہوں۔ انہوں نے کبھی بے جا روک ٹوک نہیں کی۔ میں اپنا کوکنگ کا یوٹیوب چینل چلا رہی ہوں اور وی لاگ بناتی ہوں۔ یہ اس میں میرا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ میرے شوہر خود بھی آئی ٹی منیجر ہیں۔ میرے کام کو اور مجھے بھی بھرپور وقت دیتے ہیں۔ جو کچھ مجھے اپنے شریکِ حیات سے ملتا ہے اس پر شکر ادا کرتی ہوں اور خوش رہتی ہوں۔ ہم دونوں اسی طرح خلوص اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔

قارئین!

رشتے تو پل میں بن جاتے ہیں لیکن

جیون بھر رشتوں کا نباہنا کھیل نہیں

واقعی یہ وہ محاذِ زیست ہے جس میں فاتح بننے کے لئے فریقین کو تحمل اور تدبر کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ معاشرے میں اپنے جائز حقوق منوانے اور آزادی سے سانس لینے کی آرزو مند خواتین کو بھی اپنا گھر آنگن بے حد عزیز ہے کہ یہی وہ مقام ہے جو اُن کی ذات کے اعتبار، تحفظ اور خوشیوں کی ضمانت ہے۔

میں اپنے آنگن سے معتبر ہوں

یہاں نہیں ہوں تو دربدر ہوں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں